اسرائیلی ریاست کی مکروہ پابندیوں کے جواب میں فلسطینی شہریوں نے پوری جرات اور عزیمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صہیونی پابندیوں کو پاؤں کی ٹھوکر رسید کی ہے۔ فلسطینیوں نے اسرائیلی ریاست کے نصب کردہ ان ذلت کے دروازوں سے گذرنے سے انکارکرکے دشمن پر واضح کیا ہے کہ اس کی قبلہ اوّل کو بند کرنے کی مجرمانہ چال کسی صورت میں کامیاب نہیں ہوگی۔
فلسطین نیوز کے مطابق نام نہاد الیکٹرانک گیٹس نہ صرف مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں کی آزادانہ اور باوقار آمد ورفت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں بلکہ یہ کینسر جیسے موذی امراض کے پھیلاؤ کا بھی موجب بن سکتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ صہیونی ریاست فلسطینیوں سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور وہ مسجد اقصیٰ، اس کے ارکان اور حرم قدسی پر اپنے آہنی قبضے کو مضبوط بنانے کے لیے الیکٹرانک دروازوں کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔
اسرائیلی فوج اور پولیس کی طرف سے قائم کردہ الیکٹرانک دروازے فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کےدرمیان محاذ آرائی کا مرکز ہیں۔ فلسطینی قوم نے اجتماعی طور پر اسرائیلی قدغنوں کو مسترد کرکے قومی یکجہتی کا بے مثال مظاہرہ کیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے ذلت کے دروازے گذشتہ اتوار کو مسجد اقصیٰ کے باہر نصب کیے۔ سنہ 1967ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب صہیونی فوج نے مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں کو نماز اور اذان سے روکا ہے۔
قبلہ اوّل پر بالادستی کے قیام کی سازش
مسجد اقصیٰ کے باہر فلسطینیوں کے داخلے کو روکنے لیے نام پابندیوں اور الیکٹرانک گیٹس کی تنصیب دراصل قبلہ اوّل پر اپنی بالادستی کے قیام کی مکروہ صہیونی سازش ہے۔
فلسطینی دانشور ڈاکٹر عبدالستار قاسم نے کہا کہ فلسطینی شہریوں اور محکمہ اوقاف نے ان ذلت کے دروازوں کے حوالے سے یکساں موقف اختیار کرکے صہیونی ریاست کو ایک نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ صہیونی ریاست مسجد اقصیٰ کے بیرونی راستوں پر دروازوں کے تنصیب کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے لگائے گئے نام نہاد سیکیورٹی گیٹ فوری ہٹائے گی کیونکہ فلسطینی قوم نے مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کو پیغام دے دیا ہے کہ انہیں اسرائیلی پابندیاں کسی صورت میں قبول نہیں۔
فلسطینی قوم ان ذلت کے دروازوں میں جھک کر قبلہ اوّل میں داخل نہیں ہوں گے۔
ڈاکٹر القاسم نے بیت المقدس اور مقبوضہ مغربی کنارے کے عوام سے اپیل کی کہ وہ اسرائیلی فوج اور ریاست کے دباؤ میں نہ آئیں Â اور الیکٹرانک گیٹس کے ہٹائے جانے اور دیگر پابندیوں کے مکمل خاتمے تک احتجاج جاری رکھیں۔
سابقہ سازشوں کا تسلسل
یہ پہلا موقع نہیں کہ صہیونی ریاست نے مسجد اقصیٰ پر اپنی بالادستی کے قیام کے لیے قبلہ اوّل پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ سنہ 1967ء میں مسجد اقصیٰ پر قبضے کے بعد اسرائیلی حکومت کے ایک عہدیدار مرڈ خائی گور نے قبۃ الصخرہ میں گھس کر اسرائیلی پرچم لہرا اور ایک ہفتے تک قبلہ اوّل میں فلسطینیوں کا داخلہ بند رکھا گیا۔
اس کے بعد 25 سمتبر 1996ء کو فلسطین میں انتفاضہ النفق شروع ہوئی۔ یہ انتفاضہ مسجد کے باب الغوانمہ کے قریب مغربی سمت سے اسرائیل کی ایک سرنگ کی کھدائی کے خلاف فلسطینیوں کی احتجاجی تحریک تھی۔ اس تحریک کے دوران صہیونی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں Â 60 فلسطینی جام شہادت نوش کرگئے۔
28 ستمبر 2000ء کو اسرائیلی وزیراعظم ایرئیل شیرون نے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کا ارتکاب کیا تو فلسطینی شہریوں نے انتفاضہ الاقصیٰ شروع کی۔ 30 اکتوبر 2014ء کو بھی صہیونی فوج نے مسجد اقصیٰ کو مکمل طور پر بند کردیا اور مسجد میں قبلہ اوّل کے ڈائریکٹر اور سات محافظوں کے سوا اور کوئی فلسطینی نماز ادا نہ کرسکا۔
گذشتہ ماہ 29 جون کو اسرائیلی فوج نے صہیونی آباد کاروں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے مسجد اقصیٰ کو سیل کیا اور فلسطینیوں کو داخلے سے روک دیا گیا۔
اہالیان القدس کی تذلیل
بیت المقدس سے تعلق رکھنے والی ایک فلسطینی مرابطہ (قبلہ اوّل کی مستقل نمازی) خاتون خدیجہ خویص نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کے باہر الیکٹرانک گیٹس کی تنصیب دراصل اہالیان القدس کی توہین اور تذلیل کا مکروہ صہیونی حربہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی فوج اور پولیس ان الیکٹرانک دروازوں سے داخلے کی شرط عائد کرکے بیت المقدس کے ہرچھوٹے بڑے، مرد وخواتین کی توہین کرنا چاہتے ہیں۔ ان دروازوں سے جھک کر گذرنے کا مطلب اسرائیلی فوج کے سامنے جھک کر چلنے کے مترادف ہے۔
خدیجہ خویص کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک گیٹس سے گذرنے والی خواتین کے سامان میں اگر کوئی دھاتی چیز کی نشاندہی ہوئی تو اسرائیلی پولیس کو خواتین کی جامہ تلاشی لینے اور ان کے سامان کی تلاشی کی آڑ میں ان کی تذلیل کا موقع ملے گا۔
ان الیکٹرانک گیٹس کی تنصیب کے ذریعے خواتین کی توہین آمیز اور نیم عریاں تلاشی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ مگر فلسطینی شہری اسرائیلی فوج کی اس سازش کو کسی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے باہر برقی دروازوں اور میٹل ڈیٹکٹر کی تنصیب فلسطینی شہریوں کو قبلہ اوّل سے دور کرنے اور انہیں وہاں عبادت سے روکنے کی کوشش ہے کیونکہ ان الیکٹرانک گیٹس کی آڑ میں اسرائیلی فوج کسی بھی فلسطینی شہری کو حراست میں لینے کے ساتھ ساتھ اسے جیلوں میں ڈالنے کے مکروہ حربے استعمال کرسکتے ہیں۔