الخلیل (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) حال ہی میں اسرائیلی جیل میں ایک زخمی فلسطینی کو بغیر کسی وجہ کے گولیاں مار کر شہید کرنے کے الزام میں چند ماہ کی قید کاٹنے کے بعد اس کے قاتل فوجی ’الیور ازاریا‘ کو رہا کر دیا۔ ازاریا کی جیل سے رہائیÂ نے ایک بار پھر صیہونی ریاست کے نام نہاد نظام عدل کی نسل پرستی کا کھلا ثبوت ہے۔
اسرائیلی عدلیہ میں عدل وانصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ ایک طرف فلسطینی شہریوں حتیٰ کہ کم سن بچوں کو بے گناہ ثابت ہونے کے باوجود کڑی قید کی سزائیں دی جاتی ہیں اور دوسری جانب ایک فلسطینی کے قتل کے ٹھوس ثبوت کے تحت مجرم قرار دیے جانے والے فوجی کو برائے نام چند سال قید کی سزا دے کر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ صیہونی ریاست کا عدالتی نظام بھی حکومت، سیاست، فوج اور ریاست کی طرح دہرے معیار کا شکار ہے۔فلسطینی نوجوان عبدالفتاح الشریف کے قاتل الیور ازاریا کو گذشتہ منگل کو جیل سے رہا کیا گیا ہے۔ جیل میں گذارنے والے عرصے میں بھی اسے غیرمعمولی مراعات اور سہولیات حاصل رہی ہیں۔ ازاریا نے دو سال قبل زخمی حالت میں پڑے ایک فلسطینی کوگولیاں مارکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا تھا۔ اس بے رحمانہ قتل کی ایک فوٹیج سامنے آئی تھی جس پر صیہونی ریاست نے فوجی کو ملازمت سے ہٹا کر اس کے خلاف مقدمہ چلانے کا شوشہ پھیلا کر دنیا کو بے وقوف بنایا اور عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی مذموم کوشش کی تھی۔
اسرائیلی فوجی عدالت نے الیور ازاریا کو ڈیڑھ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ بعد ازاں اس سزا میں تخفیف کرکے اسے نو ماہ کردیا گیا تھا۔ اس نے نو ماہ بھی قید نہیں کاٹی بلکہ اس سے اپنی قید کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی رہا کر دیا گیا۔
نسل پرست رجیم
انسانی حقوق گروپ الحق کے مندوب اور قانون دان فارس جبارین نے کہا کہ الیور ازاریا کی اسرائیلی جیل سے باعزت رہائی اور اسے برائے نام سزا دیے جانے سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اسرائیلی ریاست میں انسانی حقوق اور عدل وانصاف کے بجائے نسل پرستی کی حکمرانی ہے۔ صیہونی ریاست نے انسانی حقوق کے باب میں جنیوا معاہدے کی تمام سفارشات کو بھی دیوار پر دے مارا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسرائیلی ریاست عادلانہ عدالتی نظام سے تہی دامن ہے۔ اس کی عدالتیں وہی فیصلے کرتی ہیں جو انہیں فوج اور انٹیلی جنس کی طرف سے کرائے جاتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسرائیل کا پورا عدالتی نظام انٹیلی جنس اداروں اور فوج کی چاکری میں مصروف ہے۔ اس کا عقیدہ انسانیت کی پامالی اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
فرانسیسی نژاد ازاریا کو شروع میں 18 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی مگر بعد ازاں اس سزا میں کمی کر کے اسے آدھا کردیا گیا تھا۔
اسرائیلی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ الیور ازاریا کے بھائی کی شادی کی تقریب تھی۔ اس لیے اس کی رہائی میں مزید جلد بازی کی گئی اور مدت قید ختم ہونے سے پہلے ہی اسے رہا کردیا گیا تاکہ وہ اپنے بھائی کی شادی کی تقریب میں شرکت کرسکے۔
قتل ایک سوچا سمجھا منصوبہ
کلب برائے اسیران کے چیئرمین قدورہ فارس نے کہا کہ قاتل فوجی الیور ازاریا کی رہائی اور اسے برائے نام سزا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ اسرائیلی ریاست فلسطینیوں کے قتل عام کی ایک سوچی سمجھی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ ایک فلسطینی کے قاتل کو معمولی سزا دینا بھی فوجیوں اور انتہا پسند صیہونیوں کو فلسطینیوں کے قتل کی ترغیب دینا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی عدالت کے فیصلے اور الیور ازاریا کی رہائی صیہونی ریاست کی فلسطینیوں کے خون خرابے کی ثقافت اور کلچر کی عکاسی کرتی ہے۔ صیہونیوں کو یہ سبق دیا جا رہا ہے کہ وہ کسی بھی فلسطینی کا خون بہائیں مگر اس کے جرم میں انہیں کوئی زیادہ عرصے تک قید نہیں کیا جائے گا۔ دوسری طرف فلسطینی اگر سنگ باری کے الزام میں بھی پکڑے جائیں تو انہیں کئی کئی سال قید کی سزائیں دی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا سیاسی، عدالتی، سیکیورٹی اور انتظامی ڈھانچہ نسل پرستانہ پالیسی اور فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کی حکمت عملی پرعمل پیرا ہے۔