آج فلسطینیوں کی یہ یہودی وکیل ہمارے درمیان میں نہیں۔ وہ ایک ایسا خلا چھوڑ گئی ہیں جسے پورا کرنے میں عرصہ لگے گا۔ انہوں نے ہمیشہ فلسطینیوں کے بے گناہ بہتے خون کے خلاف آواز بلند کی۔ انہیں صیہونیوں کی طرف سے تنقید ہی نہیںÂ بلکہ سنگین نتائج کی دھمکیوں کا بھی سامنا رہا۔ مگر انہوں نے تنقید اور دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے فلسطینیوں کے دفاع کے لیے اپنی ہمیشہ یاد رکھی جانے والی خدمات جاری رکھیں۔
فلسطینیوں کے حقوق کے لیے بولنے والی یہ آواز 22 جون 2018ء کو 88 سال کی عمر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔ پونے صدی پر محیط ان کے تجربات فلسطینی قوم کے دفاع پر محیط ہیں۔ ان کے الفاظ کہ ’جب میں فلسطینیوں کا بہتا خون دیکھتی ہوں تو خود کو اذیت دیتی ہوں۔ میرے ہم مذہب اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے فلسطینیوں کی شناخت مٹا رہے ہیں۔ ان کے ہاتھ معصوم فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں‘۔ کو سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا۔
قانونی جدو جہد
رپورٹ میں ’فیلیٹزیا لانگر‘ کی زندگی اور ان کی خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔ فلسطینیوں کی حمایت میں زندگی کا بڑا حصہ وقف کرنے والی عالمی جہد کارہ لانگر نے اپنے شوہر میٹسیو لانگر کے ہمراہ سنہ 1950ء کے اوائل میں نازیوں کے فوجی کیمپ سے نکلنے کے بعد نقل ایک سے دوسرے اور تیسرے ملکوں میں نقل مکانی جاری رکھی۔ سنہ1967ء کے بعد وہ فلسطینیوںÂ کےحقوق کی مدافع اور وکیل بن کر فلسطین منتقل ہوگئیں۔
صیہونیوں نے لانگر کو ’قوم کی دشمن نمبر1‘ کا لقب دیا۔ یہ طعنہ انہیں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوج کے وحشیانہ مظالم پر آواز بلند کرنے کی پاداش میں دیا گیا۔
جب فلسطین میں ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا وہ سنہ 1990ء میں جمہوریہ جرمنی چلی گئیں مگر انہوں نے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
المناک فراق
’فیلیٹزیا لانگر‘ کی موت انسانی حقوق کے حلقوں کے لیے’المناک فراق‘ سے کم نہیں۔ انہوں نے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر ’لائف ایوارڈ‘ بھی حاصل کیا۔ مگر حقیقت میں وہ اپنی بہادری،جرات اور مظلوم فلسطینی قوم کے حمایت کی بدولت متبادل نوبل انعام کی مستحکم تھیں۔
فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت میں طویل عرصے تک پرامن اور قانونی جدو جہد کرنے والی لانگر اور دیگر یہودیوں میں بہت بڑا فرق تھا۔ اس کے والدین یہودی تھے اور وہ خود اسرائیلی ہونے کے باوجود فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کی وجہ سے صیہونیوں کی انتقام کا نشانہ بنتی رہیں۔
انہوں نے عالمی عدالتوں میں فلسطینیوں کی گرفتاریوں اور انہیں اذیتیں دینے کے خلاف بھرپور قانونی جنگ لڑی۔ فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری، انتظامی قید، فلسطینیوں کی اراضی اوراملاک پر غاصبانہ قبضوں کے خلاف پون صدی تک پوری جرات کے ساتھ جنگ لڑتی رہیں۔
ہمیشہ یاد رہنے والی یاداشتیں
’فیلیٹزیا لانگر‘ سنہ 1930ء کو بولونیا میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے سنہ 1965ء میں عبرانی یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ وہ اپنے تعلیمی کریئرکے دوران انسانی حقوق کی طرف مائل ہوئیں اور فلسطینی قوم کے خلاف صیہونی فوج کے جرائم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
انہوں نے اپنی یاداشتوں پر مشتمل کتاب’غصہ، امید صیہونی قبضے کے سائے میں فلسطینیوں کا سفر‘ کے عنوان سے کتاب چھاپی تو صیہونی ریاست میں جیسے آگ لگ گئی۔ اس کتاب میں انہوں نے کھل کر صیہونی فوج اور دیگر اداروں کے فلسطینیوں کے خلاف جرائم کو ایک عینی شاہد کے طور پر پیش کیا۔
انسانیت کے لیے نمونہ عمل
فلسطینی تجزیہ نگار نصری حجاج کا کہنا ہے کہ ’فیلیٹزیا لانگر‘ پیکر انسانیت تھیں اور انہیں انسانیت کے لیے نمونہ عمل کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ فلسطینی تاریخ میں کسی یہودی شخصیت نے انصاف کی بات کسی اور نے نہیں کی۔
نصری کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد بار انسانی حقوق کی تنظیموں کی تقریبات میں لانگر سے ملاقات کی۔ انہوں نے اسرائیل میں رہائش اختیار کرنےاس لیے انکار کردیا کہ وہ اسرائیل میں رہ کر فلسطینی قوم کے ساتھ ہمدردی کا اظہار نہیں کرسکتی تھیں۔
فلسطینی امور اسیران کے چیئرمین عیسیٰ قراقع نے لانگر نے ان حقائق اور اسرائیلی جرائم سے پردہ اٹھایا جنہیں صیہونی ریاست مختلف حربوں کے ذریعے چھپا رہی تھی۔ انہوں نے اپنی کتاب’بام عینی‘ اسرائیلی زندانوں میں قیدیوں سے ہونے والے غیرانسانی سلوک کا پردہ چاک کیا اور بتایا کہ صیہونی ریاست کے عقوبت خانوں میں ڈالے جانے والے فلسطینیوں سے کس بے دردی اور وحشیانہ پن کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ میں وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سےدیکھا جسے اسرائیل دنیا سے چھپاتا ہے۔ صیہونی ریاست عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا مرتکب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں ایسا کوئی ملک ایسا جس کی عدالتوں، عقوبت خانوں اور حراست مراکز میں قیدیوں پر اس طرح کے بدترین مظالم ڈھائے جاتےہیں۔