غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) ملائیشیا میں ہفتے کو علی الصباح اسرائیلی ریاست کے بدنام زمانہ خفیہ ادارے ’موساد‘ نے مجرمانہ عالمی ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی مکروہ تاریخ کا اعادہ کیا اور فلسطینی سائنسدان ڈاکٹر فادی البطش کو شہید کردیا گیا۔
ڈاکٹر فادی البطش کی شہادت عرب اور مسلمان ممالک میں مسلمان سائنسدانوں کے قتل کے مجرمانہ واقعات میں ایک نیا اضافہ ہے۔ اسرائیلی دشمن کی یہ پالیسی ہے کہ وہ عالم اسلام اور دنیا میں سائنس اور علم وتحقیق کی دنیا میں سر اٹھانے والے سائنسدانوں اور اہل علم کو نشانہ بنا کر انہیں موت کی نیند سلا دیتی ہے۔ کولالمپور میں فلسطینی سائنسدان ڈاکٹر البطش کی مجرمانہ شہادت بھی اسرائیلی دشمن کے جرائم کی ایک کڑی ہے۔یہ پہلا موقع نہیں کہ موساد نے بیرون ملک کسی فلسطینی سائنسدان کو اپنی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا ہے۔ موساد ماضی میں بھی اس طرح کی مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث رہی ہے۔ پورے عالم اسلام بالخصوص فلسطینیوں اور اسرائیلی ریاست کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والے ممالک کے سائنسدانوں کو موت کے گھاٹ اتارنا اسرائیلی دشمن کی دیرینہ حکمت عملی ہے۔ اس کا ہدف عرب اور مسلمان ممالک سب سے زیادہ بنتے رہے ہیں۔
اگرچہ ملائیشیا میں فلسطینی سائنسدان کے قتل میں موساد کے ملوث ہونے کے بہ ظاہر کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں مگر یہ کوئی ایسا گورکھ دھندہ نہیں کہ سمجھ نہ آسکے۔ اسرائیلی خفیہ ادارے دوسرے ممالک کی خود مختاری کو پامال کرتے ہوئے ہمیشہ اس طرح کی مجرمانہ کاروائیوں کا ارتکاب کرتے چلے آئے ہیں۔
اسرائیلی حکمت عملی
عالم اسلام میں مسلمان، عرب اور فلسطینی ماہرین کو نشانہ بنانے کی اسرائیلی حکمت عملی کے پیچھے کئی محرکات ہوسکتے ہیں۔ اس کا ایک اہم مقصد تو یہ ہے کہ مسلمان ممالک کے سائنس اور علم کی دنیا میں اسرائیلی ریاست سے آگے نہ نکل پائیں اور وہ کسی نا کسی طرح فکری، علمی اور سائنس کے میدان میں کام کرنے والوں کو نشانہ بنا کر اسرائیلی ریاست کی راہ میں رکاوٹوں کو ہٹاتا رہے۔
فلسطینی قیادت کو نشانہ بنانے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر عالم اسلام میں مجرمانہ دہشت گردی کے جرائم سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی ریاست ایک طے شدہ منصوبے اور سوچے سمجھے پلان کے تحت سائنسدانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ سنہ 1948ء میں اسرائیلی ریاست نے فلسطینیوں کی قاتلانہ حملوں میں شہادتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ فلسطینیوں کی ٹارگٹ کلنگ میں پیش پیش رہنے والے اسرائیلی بعد میں ریاست کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز کیے گئے۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم آنجہانی اسحاق شامیر، ازحاق رابین، ارئیل شیرو، شمعون پیرز، مناحیم بیگن وہ لوگ تھے جو پہلے ھاگانا، شیٹرون اور ارگونÂ جیسے دہشت گرد مافیاؤں کی قیادت کرتے رہےÂ اور ان کے ذریعے ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کو شہید کرایا گیا۔
خطے کی اکلوتی طاقت
فلسطینی تجزیہ نگار اور مشرق وسطیٰ میں سلامتی کے امور کے ماہر حسین علی بحیری نے کہا کہ عرب سائنسدان برسوں سے اسرائیلی ریاست کے نشانے پر ہیں۔ یہ اسرائیل کی ایک طویل المیعاد حکمت عملی ہے جس کا مقصد علمی اور سائنس کے میدان میں اسرائیلی ریاست کو بالادستی مہیا کرنا اور خطے کی اکلوتی سائنسی طاقت کے طور پر اس کا رعب قائم کرنا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل اپنی سائنسی، علمی اور فوجی بالادستی کے لیے ہمیشہ امریکا جیسے ممالک سے معاونت طلب کرتا رہا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس نے عرب ممالک میں سر اٹھانے والے سائنسدانوں کو اسÂ لیے شہید کرنے کا عمل شروع کیا تاکہ کوئی ملک سائنسی اعتبار سے اسرائیل سے آگے نہ نکل سکے۔
امریکا کے ساتھ مراسم کے دوران اسرائیل نے امریکیوں اور یورپی ممالک کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ عرب اور مسلمان ممالک کے ماہرین کو اپنے ہاں کام کا موقع نہ دیں اور نہ ان ممالک کے طلباء کو سائنس اور تحقیق کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے سے روکیں۔ یہ دباؤ کسی حد تک کار گر رہا ہے مگر اس کے باوجود عالم اسلام میں ایسے سپوت پیدا ہوتے رہے جنہوں نے علم اور سائنس کے میدان میں اپنا لوہا منوایا۔
فلسطینی سائنسدان ڈاکٹر فادی البطش کی شہادت کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کو معلوم ہے کہ فادی البطش کوئی جنگ جو کمانڈر نہیں اور نہ ہی اس کا فلسطینی تحریک مزاحمت کے ساتھ کوئی براہ راست تعلق ہے۔ مگر اس کی علمی خدمات اور سائنس کے میدان میں کاوشیں اسرائیلی دشمن کے لیے قابل برداشت نہیں۔ اس لیے انہیں راستے سے ہٹانے کی پالیسی اپنائی گئی۔
ٹارگٹ کلنگ کی مکروہ اسرائیلی تاریخ
اسرائیلی ریاست کی سیاہ تاریخ کے ان گنت پہلوؤں میں اسرائیلی ریاست کا ایک نہایت مکروہ چہرہ مخالفین کو چُن چُن کر قتل کرنا اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مخالفین کو نیست و نابودÂ کرنا رہا ہے۔ شاید ہی ایسا کوئی سال، مہینا، ہفتہ یا دن گذرتا ہو جس میں کسی نہ کسی شخصیت یا رہنما کو اسرائیلی ریاست کی مخالفت میں موت کے گھاٹ نہ اتارا جاتا ہو۔ قتل اور ٹارگٹ کلنگ کے اس مکروہ عمل میں نہ صرف مسلمان اور عیسائی نشانہ بنے بلکہ یہودی مذہب کے اعتدال پسند اور جبرو تشدد کے مخالف رہنماؤں کو بھی اپنی جانوں کی قربانی دے کراپنے خیالات کا دفاع کرنا پڑا ہے۔
رپورٹ میں اپنے قارئین کے لیےٹارگٹ کلنگ کے اسرائیلی حربوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔
ٹارگٹ کلنگ کے اہم واقعات کا آغاز سنہ 1944ء میں برطانوی رکن پارلیمنٹ لارڈ موین کے قتل سے ہوتا ہے۔ لارڈ موین برطانیہ کے سرکردہ سیاست دان اور ایک کاروباری شخصیت تھے جنہیں برطانوی یہودیوں کو فلسطین کی طرف نقل مکانی کی مکالفت کی پاداش میں قاتلانہ حملے میں ہلاک کردیا گیا۔
سنہ 1948ءسویڈش سماجی کارکن اور مصالحت کار الکونٹ برناڈوٹ کو مقبوضہ بیت المقدس میں شاہ داؤد ہوٹل میں محض اس لیے ہلاک کردیا گیا ہے انہوں نے فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث الھاگانا، ارگون اور اٹزل جیسے گروپوں کی کارروائیوں کی مخالفت کے ساتھ فلسطینیوں کے قتل عام کی مخالفت کی تھی۔
جرمنی کی خفیہ پولیس’’گسٹابو‘‘ کے ساتھ مل کر صیہونی ایجنسی کت زیرانتظام گروپوں نے جرمنی کے کئی سرکردہ یہودیوں کو اس لیے ہلاک کیا تاکہ خوف و ہراس پھیلا کر جرمنی اور یورپ کے یہودیوں کو اسرائیل کی جانب نقل مکانی پرمجبور کیا جائے۔ سنہ 1954ء میں یہودیوں کی اسرائیل کی طرف نقل مکانی کے لیے اسی طرح کے حربے عراق اور مصرمیں بھی اپنائے گئے تاکہ یہودیوں کو اسرائیل کی طرف ھجرت پرمجبور کیا جائے۔ مصر اور عراق میںÂ قاتلانہ حملوں میں مارے جانے والوں میں کئی سرکردہ مذہبی شخصیات بھی شامل تھیں۔ سنہ 1952ء میں امریکا میں نبویہ موسیٰ، پیرس میں سنہ 1980ء میں یحییٰ المشد اور سنہ 1989ء میں مصرکے اسکندریہ شہر میں سعید السید بدیر کو ہلاک کیا گیا۔
جہاں تک فلسطینی رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ میں ہلاکتوں کا تعلق ہے تو وہ بھی اندرون فلسطین، عرب ممالک اور یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔ صیہونی تحریک کی خفیہ ایجنسیوں اور اسرائیل کے خفیہ اداروں نے ہر اس فلسطینی رہنما کو جان سے مارنے کی کوشش کی جس نے کسی بھی شکل میںÂ صیہونیوں کے مظالم کی مخالفت یا مذمت کی تھی۔ بیرون ملک فلسطینیوں کو قبرص، فرانس، اٹلی، برطانیہ، یونا، آسٹریا، ویانا، بیلجیم، برسلز اور بلغاریہ میں نشانہ بنایا گیا۔
عرب ممالک میں لبنان، تیونس، مصر، اردن متحدہ عرب امارات میں عرب ممالک کو نشانہ بنایا گیا۔ سنہ 1973ء میں بیروت اور سنہ 1988ء فلسطینی رہنماؤں کو سلسلہ وار انداز میں قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ سنہ 1972ء میں عوامی محاذ کے ترجمان اور جماعت کے سیاسی شعبے کے رکن غسان کنفانی کو لبنان میں الحازمیہ کے مقام پر ان کی گاڑی میں بم نصب کرکے اسے دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میںÂ کنفانی اور ان کی بھتیجی لمیس جاں بحق ہوگئے۔
سنہ 1972ء کو 17 اکتوبر کو اٹلی کے دارالحکومت روم میں صیہونیوں نے تنظیم آزادی فلسطین کے مندوب، سفارت کار اور معروف فلسطینی ادیب وائل زعیتر کو سنائپرکی مدد سے 12 گولیاں مار کر قتل کردیا گیا۔ بعد ازاں اس کارروائی میں موساد کے اس وقت کے چیف زیوی زامیر کو ملوث قرار دیا گیا۔
فرانس میں 8 اکتوبر سنہ 1972ء کو فرانس میں تحریک فتح کے رہنما اور تنظیم آزادی فلسطین کے رکن ڈاکٹر مھمود الھمشری کو ان کے گھر کے قریب ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے دھماکے سے اڑا دیا۔
قبرص میں 9 اپریل سنہ 1973ء فلسطینی رہنما زیاد وشاحی کو ان کے کارمیں دھماکہ خیز مواد رکھ کرقتل کردیا گیا۔
تحریک فتح کے تین مرکزی رہنماؤں کمال ناصر، کمال عدوان اور محمد یوسف النجار کو قبرص میں بم دھماکوں سے ہلاک کردیا گیا۔
اپریل سنہ 1973ء میں ایتھن میں موسیٰ ابو زیادہ نامی رہنما کوان کے فلیٹ میں بم دھماکے میں قتل کیا گیا۔
جون سنہ 1973ء کو روم میں موساد نے دھماکہ خیز مواد کی مدد سے ایک کار کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں عبدالھادی نفاع اور عبدالحمید الشیبی جاں بحق ہوئے۔
پچیس نومبر 1973ء میں قبرص میں تنظیم آزادی فلسطین کے رکن حسین علی ابو الخیر کو قتل کیا گیا۔ موساد کے ایجنٹوں نے قبرص میں موجود ان کے ہوٹل کے کمرے میں ان کے بیڈ کے نیچے ایک بم نصب کیا جسے بعد ازاں ریمورٹ کنٹرول کی مدد سے دھماکے سے اڑادیا گیا۔
دو فروری 1977ء کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں تنظیم آزادی فلسطین کے رہنما محمود ولد صالح کو قاتلانہ حملے میں ہلاک کیا گیا۔
دو اگست 1978ء کو پیرس میں ڈاکٹر عزالدین القلق کو قاتلانہ حملے میں مارا گیا۔
15 دسمبر1978ء کو ایک مزاحمتی فلسطینی لیڈر ابراہیم عبدالعزیز کو قبرص میں قاتلانہ حملے میں مارا گیا۔
22 جنوری 1979ء کو تنظیم آزادی فلسطین کے مندوب علی حسن سلامہ المعروف امیرالاحمر کو بیروت میں قتل کیا گیا۔
25 جولائی سنہ 1979ء کو فلسطینی تنظیم الصاعقہ کے رہنما زھیر محسن کو فرانس کے ایک سیاحتی مقام میں ہلاک کیا گیا۔
18 فروری سنہ 1980ء کو فلسطینی دانشور اور تجزیہ نگار یوسف مبارک کو پیرس میں قاتلانہ حملے میں ہلاک کیا گیا۔
16 جون سنہ 1980ء کو تحریک فتح کیÂ سیکیورٹی کمیٹی کے رہنما محمد طہ کو روم میں قتل کیا گیا۔ یکم جونہ سنہ 1981ء کو بیلجیم میں تنظیم آزادی فلسطین کے رہنما نعیم کو برسلز میں قتل کیا گیا۔
10 نومبر 1981ء کو بیروت میں ایک بم دھماکہ کیا گیا جس میں فتح کے رہنما طارق سلیم کونشانہ بنایا گیا۔
10 اپریل سنہ 1982ء کو بیروت ہی میں تحریک فتح کے رہنما الیاس عطیہ کو قاتلانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں عطیہ اور ان کی اہلیہ جام شہادت نوش کرگئے۔
16 جون سنہ 1982ء میں روم میں تنظیم آزادی فلسطین کے رہنما نزیہ درویش کوقاتلانہ حملے میں شہید کیا گیا۔
17 جون سنہ 1982ء کو روم میں تنظیم آزادی فلسطین کے رکن کمال حسن ابو دلو اور روم یونیورسٹی کے طالب علم عزیر مطر کو فائرنگ کرکے مارا گیا۔
23 جولائی سنہ 1982ء میں پیرس میں ایک بم دھماکے میں تنظیم آزادی فلسطین کے ڈپٹی ڈائریکٹر فضل سعید الضانی کو قتل کیا گیا۔
30 اگست سنہ 1983ء کو ایتھن میں ایک کارروائی کے دوران مامون شکری مریش نامی فلسطینی لیڈر کو شہید کیا گیا۔
22 دسمبر 1983ء کو یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں جمیل عبدالقادر ابو الرب کو قاتلانہ حملے میں مارا گیا۔
14 دسمبر 1984ء کو اسماعیل عیسیٰ درویش کو روم میں قاتلانہ حملے میں قتل کردیا گیا۔ درویش تحریک فتح کے اہم رہنما تھے۔
9 جون سنہ 1986ء کو جمہوری محاذ برائے آزادی فلسطین کی سینٹرل کمیٹی کے رکن خالد نزال کو روم میں ان کے ہوٹل کے باہر فائرنگ کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا۔
21 اکتوبر سنہ 1986ء کو تحریک فتح کے رہنما منذر جودہ ابو غزالہ کو ٹارگٹ کلنگ میں شہید کیا گیا۔
14فروری سنہ 1986ء کو موساد نے قبرص میں اسلامی جہاد کے تین رہنما حمدی سلطان، مروان الکیالی اور محمد حسن کو قتل کیا گیا۔
16 اپریل سنہ 1988ء تحریک فتح کے دوسرے اہم رہنما خلیل الوزیر المعروف ابو جہاد کو تیونس میں ان کی رہائش گاہ پر بم دھماکے میں شہید کیا گیا۔
14 جنوری سنہ 1991ء کو اسرائیلی خفیہ اداروں نے تنظیم آزادی فلسطین کی سیکیورٹی کمیٹی کے سربراہ صلاح خلف الملقب المعروف ابو جہاد اور ان کے دو معاونین فخری العمری المعروف ابو محمد اور ھایل عبدالحمید المعروف ابو الھولÂ کو شہید کیا گیا۔
8 جون سنہ1992ء کو ایک سرکردہ فلسطینی رہنما عاطف بسیسو کو قاتلانہ حملے میں ہلاک کیا گیا۔
24 دسمبر 1993ء کو اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے بانی رہنما عماد عقل کو غزہ کی پٹی میں الشجاعیہ کے مقام پر ایک کارروائی میں شہید کردیا گیا۔ عماد عقل نے اپنی شہادت سے تین سال قبل ایک گوریلا کارروائی میں 11 اسرائیلی فوجی افسروں اور فوجیوں کو ہلاک اور 30 کو زخمی کردیا تھا۔
23 جون سنہ 1994ء کو غزہ کی پٹی میں حماس رہنما ناصر صلوحہ قاتلانہ حملے میں شہید کردیا تھا۔
دو نومبر سنہ 1994ء کو اسلامی جہاد کے رہنما ھانی عابد کو غزہ کے علاقے خان یونس میں شہید کیا گیا۔
22 دسمبر سنہ 1994 کو مغربی کنارے کے شہر اریحا میں حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے رہنما ابراہیم یاغی کو قاتلانہ حملے میں شہید ہوگیا۔
2 اپریل سنہ 1995ء غزہ کی پٹی میں اسرائیل نے فضائی حملے میں القسام بریگیڈ کے رہنما کمال کحیل کو قاتلانہ حملے میں شہید کیا گیا۔
26 اکتوبر سنہ 1995ء کو مالٹا میں اسلامی جہاد کے رہنما فتحی الشقاقی کو شہید کیا گیا۔
پانچ جنوری 1996ء کو غزہ کی پٹی میں لاھیا کے مقام پر بم دھماکے میں القسام بریگیڈ کے کارکن یحیٰ عیاش کو بم دھماکے میں شہید کیا گیا۔
25 دسمبر 2997ء کو اردن میں موساد کے دو ایجنٹوں نے حماس رہنما خالد مشعل کو زہر دے کر شہید کرنے کی ناکام کوشش کی تھی لیکن یہ کاررائی ناکام ہوگئی تھی۔ اس واقعے نے اردن اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کشیدہ کردیے تھے اور اسرائیلی ریاست کو حماس کے بانی رہنما الشیخ احمد یاسین کو جیل سے رہا کردیا تھا۔
29 مارچ سنہ 1998ء کو غزہ میں بم دھماکے کے نتیجے میں القسام بریگیڈ کے رہنما محی الدین الشریف کو شہید کیا گیا۔
10 دسمبر1998ء کو مغربی کنارے میں صیہونی فوجیوں نے ٹارگٹ کلنگ کی ایک کارروائی میں القسام رہنما کمانڈر عادل عوض اللہ اور ان کے بھائی کو شہید کیا گیا۔
23 نومبر سنہ 2000ء میں موساد کے ایجنٹوں نے القسام بریگیڈ کے کمانڈر ابراہیم بنی عودہ بم دھماکے میں شہید کیا کردیا گیا۔
31 نومبر 2000ء میں تحریک فتح کے سیکرتری ثابت ثابت کو قاتلانہ حملے میں شہید کیا گیا۔ ثابت طولکرم میں تحریک فتح کے اہم رہنما تھے۔
25Â جولائی سنہ 2001ء کو اسرائیلی فوج نے حماس کے ایک اہم رہنما صلاح دروزہ کو شہید کیا۔
31 جولائی سنہ 2001ء کو فضائی حملے میں حماس رہنما جمال منصور کو شہید کیا گیا۔ اس حملے میں ان کے ساتھ حماس کے سیاسی شعبے کے رکن جمال سلیم اور فلسطینی علماء کونسل کے بانی رکن اور تنظیم کے سیکرٹری بھی شہید ہوگئے تھے۔
27 اگست سنہ 2001ء کو رام اللہ میں اسرائیل کے اپاچی ہیلی کاپٹروں کی کارروائی میں عوامی محاذ کے سیکرٹری جنرل ابو علی مصطفیٰ کو شہید کیا گیا۔
22 اکتوبر سنہ 2001ء کو غزہ میں ایک بمباری طیارے کے حملے میں القسام بریگیڈ کے رہنما ایمن حلاوہ کو شہید کردیا گیا۔
23 نومبر سنہ 2001ء میں اسرائیلی فوج نے قاتلانہ حملے میں القسام بریگیڈ کے رہنما محمود ابو ھنود کو شہید کیا۔ انہیں ایک جنگی طیارے کی مدد سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
14 جنوری سنہ 2002ء کو اسرائیلی فوج نے شہداء الاقصیٰ بریگیڈ کے کمانڈر رائد الکرمی کو رام اللہ کو میں شہید کیا گیا۔
22 جنوری 2002ء کو نابلس میں صیہونی فوج کی ایک وحشیانہ کارروائی میں القسام بریگیڈ کے سربراہ یوسف السورکجی اور ان کے خاندان کے کئی افراد کو شہید کیا گیا۔
دو اپریلÂ سنہ 2002ء کو اسرائیل کے جنگی طیاروں نے غزہ کی پٹی میں رفح کے مقام پر البرازیل کالونی میں ایک میزائل داغا جسÂ میں اسلامی جہاد کے عسکری ونگ القدس بریگیڈ کے سربراہ محمد عطوہ عبدالعال کو نشانہ بنایا گیا۔ میزائل حملے میں عطوہ اور متعدد دوسرے مجاھدین جام شہادت کوش کرگئے۔
پانچ اپریل سنہ 2002ء کو مغربی کنارے کے جنین شہر میں القدس بریگیڈ کے کمانڈر ایاد حردان کو نشانہ بنایا گیا جس میں وہ شہید ہوئے۔
23 اپریل سنہ 2002ء کو صیہونی فوج نے مغربی کنارے کے الخلیل شہر میں شہداء الاقصیٰ بریگیڈ کے کماندر مروان زلوم کو نشانہ بنایا جس میں وہ شہید ہوئے۔
26 اپریل سنہ 2002ء کو غرب اردن کے شہر قلقیلیہ میں ایک لڑائی کے دورانÂ ابو علی مصطفیٰ بریگیڈ کے کماندر راید نزال کو شہید کیا گیا۔ یہ کارروائی بھی ٹارگٹ کلنگ کی نوعیت کی تھی۔
30 جون سنہ 2002ء کو نابلس میں صیہونی فورسز نے القسام بریگیڈ کے کمانڈر مہند الطاھر اور ان کے معاون ع، اد دروزہ کو قاتلانہ حملے میں شہید کیا گیا۔
چار اپریل سنہ 2002ء کو غزہ کی پٹی کار میں بم نصب کرکے شہداء الاقصیٰ بریگیڈ کے کمانڈر جھاد العمارین کو شہید کیاگیا۔
23 جولائی سنہ 2002ء کو اسرائیل کے ایف 16 لڑاکا طیارے نے غزہ کی پٹی میں ایک ٹن وزنی بم گرایا جس کے نتییجے میں گھرمیں سوئے القسام کمانڈر صلاح شحادہ ، ان کی اہلیہ، ان کی ایک بچی، ایک معاون زاھر نصار سمیت 15 فلسطینی شہید اور 174 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
14 اگست سنہ 2002ء کو غرب اردن کے طوباس شہر میں صیہونی فوج کے قاتلانہ حملے میں عزالدین القسام بریگیڈ کے کمانڈر نصر جرار شہید ہوئے۔
16فروری سنہ 2003ء میں القسام بریگیڈ کے راکٹ ساز انجینیر نضال فرحات کو ایک میزائل حملے کا نشانہ بنایا جس میں وہ جام شہادت نوش کرگئے۔
آٹھ مارچ سنہ 2003ء میں غزہ کی پٹی میں الشیخ رضوان کے مقام پراسرائیل کے دو اپاچی ہیلی کاپٹروں نے میزائل حملوں میں حماس کے رہنما ابراہیم المقادمہ اور ان کے تین ساتھیوں کو شہید کردیا گیا۔
10 اپریل 2003ء کو غزہ کی پٹی میں الشیخ رضوان کالونی میزائل حملے میں محمود الزطمہ کو شہید کیا۔
21 جون سنہ 2003ء میں الخلیل شہر میں اسرائیلی فوج کی اسپیشل فورس نے مسجد میں نماز سے نکلتے ہوئے القسام بریگیڈ عبداللہ القواسمی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ موقع پر دم توڑ گئے۔
21 اگست سنہ 2003ء کو غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے جنگی طیاروں نے ایک کار کو تین میزائل حملوں کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں حماس کےÂ حماس کے سیاسی شعبے کے رکن اسماعیل ابو شنب شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔
10 ستمبر سنہ 2003ء کو صیہونی فوج نے غزہ کی پٹی میں حماس رہنما ڈاکٹر محمود الزھار کے گھر پربمباری کی جس کے نتیجے میں ڈاکٹر الزھار کا جواں سال بیٹا خالد الزھار شہید اور اس کے والدین زخمی ہوگئے تھے۔
22 مارچ سنہÂ 2004ء کو صیہونی فوج نے حماس کے بانی اور فلسطینیوں کے روحانی پیشوا الشیخ احمد یاسین کو نماز فجر کے وقت مسجد میں میزائل حملے کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ اپنے متعدد رفقاء سمیت جام شہادت نوش کرگئے تھے۔
17اپریل سنہ 2004ء کو الشیخ احمد یاسین کی شہادت کے محض 14 ماہ بعد حماس کے سربراہ الشیخÂ ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی کو میزائل حملے میں شہید کردیا۔
30 مئی سنہ 2004ء میں اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں شاہراہ صلاح الدین پر القسام بریگیڈ کے کمانڈر وائل نصار کی گاڑی پرمیزائل حملہ کیا جس کے نتیجے میں وہ موقع پر جام شہادت نوش کرگئے۔
26 ستمبر سنہ 2004ء کو شام کے دارالحکومت دمشق میں اسرائیل کے خفیہ ادارے موساد نے حماس رہنما عزالدین خلیل کو بارود سے بھری کار سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ موقع پر شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔
21 اکتوبر سنہ 2004ء غزہ کی پٹی کے وسطی علاقے یافا میں اسرائیلی فوج نے ایک راکٹ حملے کا نشانہ بنا۔