مقبوضہ بیت المقدس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسلامی تحریک کے امیر اور بزرگ فلسطینی رہنما الشیخ رائد صلاح بدستور صیہونی زندان میں پابند سلاسل ہیں۔ عدالت کی طرف سے ان کی مشروط رہائی بھی صیہونی حکام کو گوارا نہیں۔
ان کے خلاف جعلی الزامات کے تحت پیش کردہ فرد جرم کا بھانڈہ پھوٹ چکا ہے مگر انہیں محض اس لیے رہا نہیں کیا جا رہا کہ صیہونی ریاست ان کی عوامی مقبولیت اور قبلہ اوّل کے دفاع کے لیے خدمات سے خائف ہے۔الشیخ رائد صلاح کے وکیل دفاع ایڈووکیٹ خالد زبارقہ نے خصوصی بات چیت میں اپنے موکل کے ٹرائل بارے تفصیلات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’28 مارچ کو ہم اسرائیلی عدالت سے الشیخ رائد صلاح کی مشروط رہائی کا فیصلہ لینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ حیفا کی مجسٹریٹ عدالت نے رائد صلاح کو ان کے گھر کے بجائے ایک دوسرے مقام پر گھر پر نظر بند رکھنے کی شرط پر رہا کرنے کی اجازت دی تھی تاہم صیہونی حکام اور پراسیکیوٹر نے عدالتی فیصلہ معطل کرادیا تھا۔
بلا جواز اور بغیر ثبوت فیصلہ
خالد زبارقہ نے بتایا کہ صیہونی پراسیکیوٹر جنرل نے مجسٹریٹ عدالت کو مرکزی عدالت میں چیلنج کردیا اور مؤقف اختیار کیا کہ الشیخ رائد صلاح کی کسی بھی حالت میں رہائی صیہونی ریاست کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ صیہونی مرکزی عدالت میں دی گئی درخواست میں کوئی قانونی ثبوت مہیا نہیں کیا گیا۔ یہ امر ہمارے لیے حیران کن ہے کہ الشیخ رائد صلاح کی رہائی کو مرکزی عدالت میں چیلنج کرنے کے پیچھے اسرائیلی سیاست دان ملوث ہیں۔ ان کی مشروط رہائی کی خبر سامنے آنے کے بعد اسرائیلی داخلی سلامتی کے وزیر گیلاد اردان نے سخت رد عمل کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ الشیخ رائد صلاح کی رہائی کو قبول نہیں کرتے۔ اس کے بعد ان کی رہائی مرکزی عدالت میں چیلنج کی گئی تو اردان نے اس کا خیر مقدم کیا اور الشیخ رائد صلاح کے خلاف مزید اشتعال انگیزی پھیلائی۔
ایڈووکیٹ زبارقہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی داخلی سلامتی کے وزیر نے سنہ 2017ء کے اوائل میں الشیخ رائد صلاح کے خلاف ایسی ہی شرانگیز مہم شروع کی تھی، جس کے بعد انہیں حراست میں لینے کی راہ ہموار ہوئی۔
الشیخ رائد صلاح کو جیل سے رہائی کے بعد اسرائیلی حکام دوبارہ ان کے درپے ہوگئے۔ بالآخر اگست 2017ء کوانہیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔ ان کے خلاف 12 الزامات عائد کیے گئے جن میں سے ایک اہم الزام اسرائیل کے خلاف نفرت پھیلانے کا بھی شامل ہے۔ انہی الزامات کے تحت الشیخ رائد صلاح کا ٹرائل جاری ہے۔
سیاسی بنیادوں پر گرفتاری
خالد زبارقہ نے کہ الشیخ رائد صلاح کی گرفتاری اور ان کے ٹرائل کو صیہونی ریاست کا سیاسی انتقام قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ الشیخ رائد صلاح کو سیاسی، مذہبی اور اظہار رائے کی پاداش میں پندرہ اگست 2017ء کو حراست میں لیا گیا۔
صیہونی حکام کے پاس الشیخ رائد صلاح کو گرفتار کرنے کا اور کوئی ٹھوس سبب یا جواز نہیں۔ اسرائیلی فوج اور حکام نے انہیں اسوقت حراست میں لینے کی مہم شروع کی جب انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے القدس اور مسجد اقصیٰ کے خلاف اشتعال انگیز بیانات جاری کرنا شروع کیے۔ الشیخ رائد صلاح نے امریکی اور صیہونی حکومتوں کی قبلہ اوّل اور القدس کے خلاف اشتعال انگیزیوں پرصدائے احتجاج بلند کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ صیہونی حکام الشیخ رائد صلاح کے حیفا کیس کو جواز فراہم کرنے کے لیے کوئی بہانہ ڈھونڈ رہے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ 9 اپریل کو اسرائیلی عدالت میں الشیخ رائد صلاح کے خلاف اسرائیلی پراسیکیوٹر جنرل کا ایک گواہ پیش ہوا۔ اس گواہ نے عربی میں گفتگو کی جب کہ اسرائیل کے ایک ترجمان نے اسے عبرانی زبان میں عدالت میں ترجمہ کیا۔ ترجمان نے الشیخ رائد صلاح کے مؤقف کے برعکس غلط ترجمہ کیا اور تاکہ انہیں اس خطبہ کی پاداش میں جیل میں ڈالا جاسکے جس کی بنیاد پر انہیں حراست میں لیا گیا ہے۔
رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش
خالد زبارقہ نے الشیخ رائد صلاح کے ٹرائل اور ان کے خلاف جعلی الزامات کو اسرائیل کی ایک گہری سازش قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی حکام الشیخ رائد صلاح کی تقایر کو رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صیہونی پراسیکیوٹر نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت الشیخ رائد صلاح کے بیانات کا عبرانی میں غلط ترجمہ کرایا تاکہ ان کے خلاف الزامات کو سند جواز مہیا کی جاسکے۔ ترجمانی کی ذمہ داری اس شخص کو سونپی گئی جو اس سے قبل الشیخ رائد صلاح سے تفتیش کرنے والوں میں شامل رہ چکا ہے۔
ترجمہ میں فاش غلطیاں
ایڈووکیٹ خالد زبارقہ نے بتایا کہ اسرائیلی ترجمان نے عدالت میں الشیخ رائد صلاح کے بیان اور ان کی تقاریر کے ترجمے کے دوران 10 فاش غلطیاں کیں۔ یہ دانستہ کوشش تھی جس کا مقصد الشیخ رائد صلاح کے خلاف عدالت میں مقدمہ مضبوط کرنا تھا۔ ان میں بعض غلطیاں قرآن پاک کی آیات اور احادیث کے ترجمے میں بھی کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیلی عدالت میں انصاف کی ذرا بھی رمق موجود ہوتی تو وہ ترجمان کی غلط بیانی پرکا نوٹس لیتے ہوئے الشیخ رائد صلاح کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا حکم صادر کرتی۔ ان سے معافی مانگی جاتی اور جعلی سازی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جاتا مگر ایسا نہ کرکے عدالت نے اپنی ساکھ کو بھی داغ دار کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ الشیخ رائد صلاح کا ٹرائل سیاسی ہے اور سیاسی اھداف کے تحت ان کے خلاف عدالتی کارروائی کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔