رپورٹ میں تحریک انتفاضہ کے دوران اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے دوران فلسطینی بچوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات، اسباب ، محرکات اور اس کے نتائج و اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحریک انتفاضہ القدس کے دوران فلسطینی بچے خاص طور پر اسرائیلی دہشت گردی کا نشانہ بنائے گئے۔ سیکڑوں فلسطینی بچوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔ دوران حراست وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزیاں کرتے ہوئے فلسطینی نونہالوں پرجعلی مقدمات قائم کرکے انہیں خوف زدہ کرنے کی مذموم اور گھناؤنی کوششیں کی گئیں۔
کلب برائے اسیران فلسطین نامی تنظیم کے جمع کردہ اعدادو شمار کے مطابق اس وقت بھی تحریک انتفاضہ القدس کے ایک سال میں گرفتار کیے گئے سیکڑوں Â بچوں میں سے 350 بدستو پابند سلاسل ہیں۔ ان میں سے 115 بچوں کا تعلق مقبوضہ بیت المقدس سے ہے جب کی کم عمر بچوں میں 12 بچیاں بھی زیرحراست ہیں جن کی عمریں سترہ سال سے کم ہیں۔
غیریقینی اعداد و شمار
عالمی تحریک دفاع اطفال کے ایک عہدیدار عاید قطیش کا کہنا ہے کہ فلسطین کے اندر اور باہر سرگرم کئی اداروں کی طرف سے تحریک انتفاضہ کے دوران انتقام کا نشانہ بنائے گئے بچوں کے اعدادو شمار جاری کیے گئے ہیں مگر کسی ادارے کے پاس حقیقی اعدادو شمار نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی بچوں کی گرفتاریوں کے دسیوں واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ بعض بچوں کو مختصر وقت کے لیے حراست میں لیا جاتا ہے، بعد ازاں انہیں رہا کردیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ انتفاضہ القدس کے دوران کتنے بچوں کو حراست میں لیا گیا۔
عاید قیطش نے کہا کہ یکم اکتوبر 2015ء کو فلسطینی علاقوں میں بچوں کی گرفتاریوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیلی فورسز روزانہ فلسطینی بچوں کو گرفتار کرتی اور انہیں حراستی مراکز میں ڈال کر تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔ انسانی حقوق کے مندوب کا کہنا تھا کہ کم عمر بچوں کی گرفتاریاں اورانہیں جیلوں میں ڈال کر اذیت کا نشانہ بنانا عالمی انسانی حقوق کی کھلی پامالی ہے۔
غیرقانونی ہتھکنڈوں کا استعمال
تحریک دفاع اطفال کے مطابق صہیونی ریاست کے سیکیورٹی ادارے بالخصوص فوج، پولیس اور خفیہ ادارے ’’شاباک‘‘ کے اہلکار فلسطینی بچوں کو ظالمانہ طریقے سے گرفتار کرنے کے بعد ان پر نام نہاد الزامات عائد کرتے ہیں اور بعد ازاں ان پر تشدد کے غیرقانونی ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی بچوں کو گرفتار کرنا اور ان سے وحشیانہ تفتیشی حربوں کے ذریعے اعتراف جرم کرانا عالمی قوانین کی سنگین پامالی ہے مگر قابض ریاست ایک جنگی حربے کے طور پر بچوں کے ساتھ یہ وحشیانہ سلوک کررہی ہے۔
عاید قطیش کا کہنا ہے کہ فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقس کے جو علاقے صہیونی ریاست کے زیرتسلط ہیں وہاں پر فلسطینی بچوں کے بنیادی حقوق کی بھی پامالی جاری ہے۔ بچوں کو حاصل عالمی معاہدوں کے تحت حقوق فراہم نہیں کیے جاتے اور صہیونی فوجی ہر فلسطینی بچے کو دہشت گرد کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی پرعالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی بھی لمحہ فکریہ ہے۔
ظالمانہ سرگرمیاں
تحریک دفاع اطفال کے مندوب کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست نے فلسطینی بچوں کو حراست میں ڈالنے کے لیے دیگر ہتھکنڈوں کے ساتھ ساتھ بچوں کو انتظامی حراست کی سزائیں دینے کا مکروہ سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران 20 فلسطینی بچوں کو انتظامی حراست کے تحت پابند سلاسل کیا گیا۔ ان میں سے 16 بچوں کا تعلق غرب اردن اور 4 کا بیت المقدس سے ہے۔
جیلوں میں انتظامی قید کے تحت پابند سلاسل بچوں میں سے بعض پر صرف یہ الزام ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اسرائیل کے خلاف اشتعال پھیلا رہے ہیں۔ ان بچوں کو فیس بک پر سرگرم رہنے کی پاداش میں جیلوں میں ڈالا گیا۔
انسانی حقوق کے مندوب کا کہنا ہے کہ فلسطینی بچوں کو جیلوں میں ڈالنا اورانہیں انتظامی حراست کے تحت پابند سلاسل رکھنا بدترین نسل پرستی کا مظہر ہے۔ صہیونی حکام نے 12 اور 14 سال کے بچوں کو بھی انتظامی حراست جیسی ظالمانہ قید کے تحت پابند سلاسل کرنے میں بھی کوئی تامل نہیں برتا۔
اس وقت بھی اسرائیلی جیلوں میں Â 12 سالہ احمد زعتری، 12 سالہ شادی فراح اور 16 سالہ بچی نورھان عواد کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے ہیں اور انہیں باضابطہ قید کی سزائیں دینے کی ساز کی جا رہی ہے۔