مقبوضہ بیت المقدس – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) سنہ 2017ء کا آغاز اہل فلسطین کے لیے کئی حوالوں سے پریشان کن ثابت ہوا۔ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے یہودی نواز اور اسرائیل پر واری جانے والے ری پبلیکن صدر بنے تو صہیونی انتہا پسندوں کی رگوں میں سیروں خون بڑھ گیا۔ ٹرمپ نے بھی اسرائیلی حکومت اور یہودی انتہا پسندوں کو اپنی غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا۔
فلسطینی قوم کے خلاف صہیونی سازشوں کا دوسرا بڑا بم’قانون الحاق اراضی‘ کی منظوری کی شکل میں گرا۔ فروری 2017ء کےاوائل میں اسرائیلی کنیسٹ نے پہلی، دوسری اور تیسری رائے شماری میں 60 ووٹروں کی اکثریت اور Â 52 ارکان کی مخالفت سے فلسطینی اراضی ہتھیانے کا قانون منظور کرلیا گیا۔فلسطینی اراضی پر ڈاکہ ڈالنے کا اب تک کا یہ انتہائی خطرناک قانون ہے جس کا ہدف سرکاری زمین نہیں بلکہ فلسطینیوں کی نجی ملکیتی اراضی اور املاک صہیونی آباد کاروں کے لیے مباح قرار دینا ہے۔
صہیونی کنیسٹ کی جانب سے منظور کیے جانے والے قانون الحاق اراضی کے مختلف مراحل اور اس کے نتائج واثرات پر ایک رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔
قانون کی آڑ میں فلسطینی اراضی پر ڈاکہ
اسرائیلی کنیسٹ سے فلسطینی اراضی کے اسرائیل میں الحاق کے حوالے سے منظور کردہ نام نہاد قانون نے پہلے مرحلے پرہی مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں فلسطینیوں کی اراضی پر بنائے گئے 5000 گھروں کو تحفظ فراہم کردیا گیا۔ اس قانون میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ اس قانون کو کسی عدالت بہ شمول سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی عدالت فلسطینیوں کی نجی اراضی پر بنائی گئی یہودیوں کے لیے املاک کو غیرقانونی قرار نہیں دے سکتی۔
اس قانون کی رو سے اسرائیلی حکومت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی نجی اراضی کو فوجی نوٹس کے ذریعے صرف فوجی نوٹس کے ذریعے صرف 30 دن کے اندر اندر قبضے میں لینے کی مجاز ہے۔ فلسطینیوں کی اراضی اور دیگر مغصوبہ املاک کو صہیونی آباد کاری کو قانونی شکل دینے کے لیے قائم کردہ ’ھسٹڈروٹ‘ میں پیش کیا جائے گا جو باقاعدہ طور پر اسے اسرائیل میں شامل کرنے اور اس پر صہیونی آباد کاروں کے لیے تعمیرات شروع کرنے کی منظوری دی گا۔ یہ ادارے غصب کی گئی اراضی کے رقبے کا تعین کرے گا، اس کی حد بندی کرے گا اور اس حد بندی کے گرد باڑ یا دیوار لگانے کا بھی حکم دے گا۔
دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے فلسطینی اراضی غصب کرنے کے قانون کے ذریعے متاثرہ فلسطینی شہریوں کو اراضی کا معاوضہ ادا کرنے کی تجویز شامل ہے مگر اس طرح کی تجاویز محض نمائشی اور فرضی ہی ہوسکتی ہیں۔ اس قانون کے تحت کسی متاثرہ فلسطینیوں کو متبادل اراضی کی الاٹ منٹ یا انہیں اراضی کی قیمت ادا کی جائے گی۔
اس قانون کا اطلاق صہیونی آباد کاروں کے پہلے سے تعمیر شدہ گھروں اور کالونیوں پربھی ہوگا جو فلسطینیوں کی نجی اراضی غصب کرکے تعمیر کیے گئے ہیں۔ اس وقت بڑی صہیونی کالونیوں سے باہر غرب اردن میں ایسی کوئی 20 کالونیاں موجود ہیں جنہیں فلسطینیوں کی نجی زمینوں پر تعمیر کیا گیا ہے۔
باپاک بیج کا آغاز
اسرائیلی سپریم کورٹ نے مئی 2012ء کو ایک عدالتی فیصلہ صادر کیا جس میں غرب اردن میں غیرقانونی طور پر فلسطینیوں کی اراضی پر تعمیر کی گئی ’بیت ایل‘ صہیونی کالونی میں موجود یہودیوں کے چار مکانات کو مسمار کرنے کا حکم دیا۔ پہلی بار اسرائیلی عدالت نے تسلیم کیا کہ صہیونی حکومت اور صہیونی آباد کار فلسطینیوں Â کی نجی اراضی پر تعمیرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اسرائیلی عدالت کے فیصلے کے باوجود صہیونی حکومت یہودیوں کے غیرقانونی مکانات کو خالی کرنے یا انہیں گرانے سے پہلو تہی اختیار کرتی رہی۔ تا آنکہ اسرائیلی کابینہ کے موجودہ وزیر اور رکن کنیسٹ ’یریف لیفین‘ نے فلسطینیوں کی نجی اراضی پر بنائے گئے مکانات کو خالی کرانے کے بجائے اسے قانونی طور پر حصہ بنانے کی تجویز پیش کی۔
یوں صہیونی حکومت کو فلسطینیوں کی نجی نوعیت کی املاک پر دست درازی کا نیا موقع ہاتھ آگیا۔
اگرچہ اسرائیلی حکومت نے بیت ایل میں مذکورہ چار مکانات مسمار کردیے کیونکہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نےآغاز میں اس قانون کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ جو وزیر اس قانون کی حمایت کرے گا اسے وزارت کا قلم واپس لے لیا جائے گا۔
پہلی کوشش کی ناکامی کے بعد دوسری کوشش
فلسطین میں صہیونی آباد کاری کے لیے فلسطینیوں کی نجی اراضی غصب کرنے کا قانون دوسری بار ’جیوش ہوم‘ نامی یہودی مذہبی سیاسی جماعت ’بتزلیل سموطریچ‘ اور ’چولا رفائیل معلم‘ نے نومبر 2016ء میں دوبارہ اس قانون کو زیربحث لانے کی تجویز پیش کی۔ ان کی حمایت میں لیکوڈ پارٹی کے ارکان سمیت 20 ارکان کنیسٹ نے حمایت کی۔ اس طرح یہ قانون اسرائیلی کنیسٹ میں بحث کے لیے پیش کردیا گیا۔ یہ قانون اس وقت پارلیمنٹ میں لایا گیا جب عدالت کے حکم پر’عموناہ‘ صہیونی کالونی کے انخلاء کے لیے طے شدہ تاریخ بھی قریب آچکی تھی۔
’عموناہ‘ کالونی بھی فلسطینیوں کی نجی ملکیتی اراضی پر تعمیر کی گئی ہے۔ یہ کالونی رام اللہ کے قریب سلواد، عین یبرود اور الطیبہ قصبوں کی اراضی پر بنائی گئی ہے جس میں فلسطینیوں کی نجی اراضی کو غصب کرکے استعمال کیا گیا۔ سنہ 2014ء میں مقامی فلسطینی شہریوں نے اپنی اراضی غصب کرکے یہودیوں کے لیے مکانات کی تعمیر کے خلاف اسرائیلی عدالت میں درخواست دی تھی۔ عدالت نے 25 دسمبر 2016ء تک فلسطینی اراضی پر بنائے گئے مکانات خالی کرکے فلسطینیوں کو ان کی اراضی واپس کرنے کا حکم دیا تھا۔
امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے اور ان کی جانب سے صہیونی ریاست کی غیرمعمولی تائید وحمایت کے بعد اسرائیلی حکومت میں شامل ’جیوش ہوم‘ گروپ کی طرف سے وزیراعظم نیتن یاھو پر عموناہ کالونی کو خالی نہ کرانے کے لیے قانون سازی کے لیے دباؤ بڑھا دیا گیا۔
دیگر شدت پسند ارکان نے بھی پوری قوت سے وزیراعظم پر دباؤ ڈالا جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کی نجی اراضی پر بنائی گئی عمونا کالونی میں عدالتی فیصلے کے تحت مکانات کی مسماری روک دی گئی اور پارلیمنٹ میں ایک قانون پیش کیا گیا جس پر بحث کو تیزی کے ساتھ Â سمیٹ کر فلسطینیوں کی نجی اراضی کو قانونا اسرائیل کے لیے جائز قرار دیا گیا۔
قانون پر اعتراضات
اسرائیلی پارلیمنٹ کی طرف سے فلسطینی اراضی غصب کرنے کے غاصبانہ قانون کی منظوری پراسرائیلی سیاسی حلقوں کی طرف سے اعتراضات بھی کیے گئے ہیں۔
اسرائیلی مشیر قانون افیحائی مندلبلیت، وزیر مالیات اور کولانو کے سربراہ ’موشے کاحلون‘ عامونا سے متعلق شق کی مخالفت کی اور کہاکہ چونکہ اس کالونی کو عدالت کی طرف سے خالی کرنے کا حکم دیا جا چکا ہے۔ اس لیے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ضرور کیا جانا چاہیے ورنہ عدلیہ کمزور ہوسکتی ہے۔
فلسطینی اراضی پرقبضے کو جواز فراہم کرنے کے متنازع قانون کی سب سے زیادہ اور شدت کے ساتھ مخالفت میں مندلبلیت پیش پیش ہیں۔ عدالتی فیصلے کو نظرانداز کرنا غیرقانونی ہوگا اور اس کا سپریم کورٹ میں دفاع ممکن نہیں ہوگا۔
سیاسی مخالفت کے بعد اس قانون کی دفعہ 7 کو حذف کردیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ اس قانون کا تیزی کے ساتھ اطلاق عموناہ کالونی کے مکانات پر بھی کیا جائے۔
پانچ دسمبر 2016ء کو جب فلسطینی اراضی کے الحاق کا متنازع قانون ابھی زیر بحث تھا صہیونی حکومت نے عموناہ کالونی کی اراضی کو’مترکہ املاک‘ کا حصہ قرار دیا تھا۔
قرارداد 2334
فلسطین میں صہیونی آباد کاری کی مذمت میں سلامتی کونسل میں 23 دسمبر 2016ء کو منظور کی گئی قرارداد پر نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور اسرائیلی حکومت کو حوصلہ دیا کہ وہ میرے آنے تک ڈٹے رہیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب امریکی حکومت نے فلسطین میں یہودی آباد کاری کی مذمت میں پیش کی گئی قرارداد کو ویٹو نہ کرکے اسے منظور ہونے دیا مگر ’ویٹو‘ کیے جانے کی کسر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے نکال دی ہے۔
تئیس دسمبر 2016ء کو منظور کی گئی سلامتی کونسل کی قرارداد 2234 اقوام متحدہ کے چیپٹر 6 کا حصہ بنائی گئی۔ چیپٹر چھ میں آنے کے نتیجے میں اس قرارداد کے نتائج و اثرات زیادہ موثر نہیں رہے کیونکہ اس قرارداد کی منظوری سے اسرائیل کو صہیونی آباد کاری روکنے کے لیے عملی اقدامات ممکن نہیں ہیں۔
سلامتی کونسل کی قرارداد نے صہیونی انتہا پسند سیاست دانوں میں آگ لگا دی۔ جیوش ہوم سمیت تمام انتہا پسند یہودی گروپوں نے وزیراعظم نیتن یاھو پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ فلسطین میں صہیونی آباد کاری کی منصوبوں میں تیزی لانے کے ساتھ ساتھ صہیونی کالونیوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے بھی فوری اقدامات شروع کریں۔
نیتن یاھو کے اسکینڈل اور قانون الحاق
اسرائیلی حکمراں اتحاد لیکوڈ اور جیوش ہوم کے درمیان پائے جانے والے بعض اختلافات اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے خلاف سامنے آنے والے کرپشن کے الزامات نے فلسطین میں صہیونی آباد کاری کے متنازع قانون کی منظوری میں مزید عجلت کی راہ ہموار کی۔
اسرائیلی اپوزیشن کی جانب سے فلسطینی اراضی پر قبضےکے قانون کی مخالفت میں400 اعتراضات پیش کیے۔
اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں اور ’Now Peace‘ گروپ نے صہیونی آباد کاری کے قانون کو اسرائیلی سپریم کورٹ میں چلینج کرتے ہوئے اسے منسوخ کرانے کا اعلان کیا ہے۔ متنازع قانون کنیسٹ کے خلاف اسرائیل کے اندر بھی قانونی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ اس قانون میں ایک طرف اسرائیلی حکومت اور اس کی ریاستی مشینری ہے اور دوسری طرف اسرائیلی اپوزیشن اور انسانی حقوق کی تنظیمیں قانونی جنگ لڑنے کے لیے پر تول رہی ہیں۔