سنہ2016ء میں مقبوضہ مغربی کنارے کے اساتذہ نے اپنے مالی حقوق کے حصول، بند کی گئی تنخواہون کی ادائیگی اور دیگر جائز ، اخلاقی اور اصولی مطالبات کے لیے احتجاج شروع کیا تو فلسطینی اتھارٹی اتھارٹی نے ان کے حقوق ادا کرنے کے بجائے ان کا عزت کے ساتھ جینے کا معاشی حق بھی ان سے سلب کرلیا۔ مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں ملازمین، اساتذہ اور دیگر محکموں کے ملازمین کو جبری ریٹائرڈ، برطرف یا دیگر حربوں سے ملازمت سے محروم کردیا گیا اور جو بچ گئے ان کی تنخواہوں میں اضافے کے بجائے کمی کردی گئی۔
اس طرح فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی سیاست کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے روزگار اور ان کے نتیجے میں ہزاروں گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے اور بالواسطہ طورپر لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔
فلسطینی اتھارٹی کی معاشی انتقامی پالیسی کے شکار فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد متبادل روزگار کےحصول کے لیے کوششیں کرنے لگی، کسی نے کوئی معمولی کاروبار شروع کیا تو کسی نے محنت مزدوری شروع کردی۔ سیکڑوں ایسے ہیں جو باعزت روزگار چھن جانے کے باعث عرب اور دوسرے ممالک کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے۔
مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس کے ایک 32 سالہ اسکول ٹیچر صامد صنوبر بھی فلسطینی اتھارٹی کے متاثرین میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی میری سروس صرف چھ سال ہوئی تھی کہ فلسطینی اتھارٹی نے مجھے نوکری سے نکال دیا۔ میرا قصور صرف یہ تھا کہ میں نے سنہ 2006ء میں جب میری عمر31Â سال تھی احتجاجی مظاہرے میں حصہ لینے کی پاداش میں ملازمت سے برطرف کردیا۔
انہوں نے بتایا کہ میری طرح آزدانہ موقف رکھنے والے سیکڑوں میرے ساتھیوں کو نکال دیا گیا۔ ان کی آخری کڑی عیسیٰ قراقع ہیں جنہیں فلسطینی محکمہ امور اسیران کے انچارج کے عہدے سے ہٹا دیا گیاْ اس سے قبل ملازمین یونین کے رابطہ کار بسام زکارنہ بھی فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی سیاست کی نذر ہو کرملازمت سے محروم ہوگئے۔
مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل کے استاد ناصر حمیدان بھی انہی میں شامل ہیں جنہیں فلسطینی اتھارٹی نے ملازمت سے محروم کیا۔ وہ ملازمت کی تلاش میں امرکا چلے گئے۔
اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے والے جبری ریٹائرڈ کیے گئے ایک معلم نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی حکومت اور تحریک فتح جمہوریت کے تمام مفاہیم کا قتل کرنا چاہتی ہے۔ کوئی شخص فلسطینی اتھارٹی کی ناک تلے اس کی مخالف یا آزادانہ رائے کا اظہار نہیں کرسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کو تمام فلسطینیوں کو اپنی اولاد کی طرف رکھنا چاہیے تھا مگر فلسطینی اتھارٹی’سب بھاڑ میں جائیں‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ رام اللہ حکومت کی انتقامی سیاست کے نتیجے میں ملک کے قیمتی نوجوان ھجرت پرمجبور ہیں۔
گذشتہ برس مرکزاطلاعات فلسطین کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ فلسطین کے 24 فی صد نوجوان اقتصادی بد حالی کی وجہ سے ھجرت پر غورکررہے ہیں۔