غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) ایک ایسے وقت میں جب غزہ کی پٹی کے عوام مسلسل کرب اور اذیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں صیہونی ریاست نے غزہ کے عوام پر پابندیوں کا ایک نیا بم گرا دیا ہے۔
حالیہ ایام میں یہ خبریں بھی گردش میں رہیں کہ صیہونی ریاست صدی کی ڈیل کے امریکی منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے غزہ کی پٹی پر عائد کردہ پابندیوں میں نرمی کی خواہاں ہے۔ مگر ان خبروں کے جلو میں قابض صیہونی ریاست نے غزہ کے عوام پر پابندیاں کم کرنے کے بجائے ان میں مزید اضافہ کردیا۔غزہ اور غرب اردن کے درمیان تجارتی آمد ورفت کے لیے استعمال ہونے والی ’کرم ابو سالم‘ گذرگاہ بند کردی اور اس گذرگاہ سے سوائے ادویہ اور بنیادی ضرورت کے خوراک کے سامان کے ایندھن سمیت دیگر سامان کی ترسیل پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ غزہ کے ماہی گیروں کے مچھلیوں کے شکار کے لیے سمندری میلوں میں بھی چھ سے کمی کرکے تین میلوں تک محدود کردیا گیا ہے۔
پابندیوں کا مقصد
فلسطینی تجزیہ نگار عماد ابو عواد نے اسرائیل کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے محرکات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی پابندیوں کے دو اہم مقاصد ہیں۔ پہلا مقصد غزہ میں مزاحمتی قوتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل غزہ کی پٹی پر پابندیوں کے ذریعے کوئی قیمت ادا کیے بغیر وہ سیاسی مقاصد بھی حاصل کرنا چاہتا ہے جواب تک طاقت کے استعمال سے حاصل نہیں کرسکے۔
ابو عواد نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی ناکہ بندی میں مزید سختی سے واضح ہوتا ہےکہ صیہونی ریاست غزہ کی مزاحمتی قوتوں کو اپنے سامنے جھکانے میں ناکام رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل غزہ کے عوام پر معاشی پابندیوں میں اضافہ کرکے فلسطینی مزحمتی قوتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
اقتصادی خسارہ
فلسطینی تجزیہ نگار ماھر الطباع کا خیال ہے کہ صیہونی ریاست کی طرف سے غزہ پر نئی پابندیاں دراصل غزہ کے عوام پر فرینڈلی فائر کے مترادف ہے۔
غزہ کی پٹی پر عائد کردہ اسرائیلی پابندیوں کے خلاف سرگرم عوامی کمیٹی کے چیئرمین جمال الخضری کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پابندیوں کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں 80 فی صد کار خانے اور کاروباری مراکز بند ہوچکے ہیں۔ غزہ میں بے روزگار افراد کی تعداد تین لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جن میں سے بیشتر جامعات کے فضلاء ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل پابندیوں کے ذریعے غزہ کو معاشی طور پر دیوالیہ کرنے کا خواہاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ کے تجارتی اور صنعتی اداروں کی جڑیں کاٹی جا رہی ہیں۔ صیہونی ریاست نے غزہ کی پٹی کو خام صنعتی مواد کی فراہمی پر 100 فی صد پابندی عائد کر رکھی ہے۔
صدی کی ڈیل قبول کرنے کے لیے دباؤ
عوامی محاذ برائے آزاد فلسطین کے رہنما رباح مھنا کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کے عوام پر ایک ہی وقت میں دو طرح کے انتقامی حربے مسلط کررکھے ہیں۔
ایک طرف غزہ کے عوام پر معاشی اور اقتصادی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف غزہ کی پٹی پر دن رات بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صیہونی ریاست اس وقت غزہ کی مشرقی سرحد پر جاری احتجاج اور فلسطینیوں کے گیسی غباروں کی وجہ سے کافی پریشان ہے اور مختلف حربوں کے ذریعے دباؤ ڈال کر گیسی غباروں اور آتش گیر جہازوں کے پھینکنے کا سلسلہ رکوانا چاہتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ جنگ اور معاشی دباؤ کے ذریعے حماس کو امریکا کے ’صدی کی ڈیل‘ منصوبے کو قبول کرنے، غزہ کو غرب اردن سے الگ کرنے اور نیتن یاھو کے اقتصادی لالی پوپ کو قبول کرنے پر قائل کرے۔