غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) غزہ کی پٹی کی فلسطینی قوتوں اور مصر کے درمیان جاری بات چیت میں پیش رفت، اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کی کوششوں کے جلو میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) اور تحریک فتح کے درمیان مصالحتی کوششیں محتاط انداز میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ موجودہ حالات میں غزہ ایک نئے اور فیصلہ کن موڑ میں داخل ہوچکا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ غزہ جس لمحہ موجود سے گذر رہا ہے اس میں صفر تک پہنچنے اور نتائج کو صفر تک لے جانے کا متحمل نہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ غزہ کی پٹی پر عائد پابندیوں میں نرمی نہ ہو اور حالات بہتر ہونے کی کوئی خوش خبری سننے کو نہ ملے۔ ایسا ہونے کی صورت میں غزہ میں انسانی بحران مزید ابتر ہوسکتا ہے۔غزہ میں بعض ایسے عوامی سروے بھی سامنے آئے ہیں جن میں بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں مصر اور غزہ کے درمیان مذاکرات سے کوئی امید ہے اور نہ ہی فلسطینی دھڑوں میں صلح کی کوئی امید کی جاسکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی چاہتی ہے کہ غزہ اس کے آکسیجن کے بغیر سانس نہ لے۔
فلسطینی اتھارٹی کی ہٹ دھرمی
مصر اور حماس کے درمیان مذاکرات پر فلسطینی اتھارٹی نے پہلے دن سے شدید تناؤ اور پریشانی کا اظہار کیا۔ فلسطینی اتھارٹی کے مدار المہام رہنماؤں کی طرف سے ایسے اشتعال انگیز بیانات سامنے آئے جن کے نتیجے میں فلسطینیوں میں مفاہمت کی فضاء خوش گوار ہونے کے بجائے مزید مکدر ہوئی۔ تحریک فتح نے بھی حماس کے خلاف حسب توفیقÂ اپنا غصہ نکالا۔
فلسطینی تجزیہ نگار صلاح رمضان کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کا طرز عمل اور قومی مصالحتی معاہدے پر دستخط کے بعد کی پالیسی ناقابل فہم ہے۔ ایک طرف فلسطینی دھڑے ملک کے تمام اہم قومی ایشوز کو صلاح مشورے سے حل کرنے پر متفق ہیں تو دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی اپنی آمرانہ روش پر بدستور قائم ودائم ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی یہ پالیسی اس کی ہٹ دھرمی کو ظاہر کرتی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ تحریک فتح کے مصالحتی مذاکرات کار عزام الاحمد کا ایک حالیہ بیان تو انتہائی تشویشناک ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ہم غزہ میں مسلح ملیشیا کا وجود برداشت نہیں کریں گے۔ جیسا کہ غرب اردن میں کر رہے ہیں غزہ کی پٹی میں بھی ایسا ہی کریں گے۔
پرانا سیناریو
لوئی رجب فلسطین کی موجودہ اور پرانی سیاسی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطین کی موجودہ مفاہمتی مساعی سے کوئی خیر کا پہلو سامنے آتا دکھائی نہیں دیتا۔ فی الواقعہ فلسطینی دھڑوں میں جاری حالیہ مذاکراتی مشق ماضی کے ناکام تجربات دہرانے کی کوشش ہے۔ تحریک فتح اپنے اسی سابقہ اور پرانے فرسودہ فلسفے پر قائم ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری اس شرط کے ساتھ فلسطینیوں میں مصالحت چاہتی ہے کہ تمام گذرگاہوں کا کنٹرول فتح اور فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہو، وہی غزہ کی تعمیر نو کی نگرانی کریں اور اس بات کی ضمانت دی جائے کہ حماس کو ایک ڈھیلا بھی نہ مل سکے۔
مگر اس سے بھی زیادہ خطرناک پیش رفت فلسطینی مزاحمتی ڈھانچے کو ختم کرنا ہے۔ موجودہ حالات میں مزاحمتی نیٹ ورک کو ختم کرنا نہیں بلکہ قوم کو بچانے کے لیے ریسکیو محاذ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے غزہ کا مستقبل فیصلہ کن موڑ میں داخل ہوچکا ہے۔