الخلیل – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل فلسطینی رہنماؤں میں فلسطینی پارلیمنٹ کے منتخب رکن ڈاکٹرعزام سلھب کا نام بھی شامل ہے۔
ڈاکٹر عزام سلھب کی زندگی جہد مسلسل اور صبرو عزیمت سے عبارت ہے۔ ان کے اہل خانہ اور بچے جہاں سلھب کی بار بار گرفتاریوں اور اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل ہونے کے بناء پر دکھوں اور تکالیف کا سامنا کررہے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ ڈاکٹر عزام سلھب جیسے عظیم الشان لیڈر کی اولاد یا ان کے اہل خانہ میں شامل ہیں۔ڈاکٹرعزام سلھب کواسرائیلی فوج بغیر کسی جرم کے بار بارحراست میں لے کر اُنہیں جیلوں میں ڈالتی رہی ہے۔
ڈاکٹر عزام سلھب کی اہلیہ ام نعمان نے خصوصی بات چیت کی جس میں انہوں نے اپنے اہل خانہ کی پریشیانیوں کا ا حوال بیان کیا۔
ام نعمان کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات پر تو فخر ہے کہ وہ ایک ایسے فلسطینی لیڈر کی اہلیہ ہیں جو فلسطینی قوم کے لیے ناقابل فراموش جدو جہد کررہے ہیں، مگر وہ صہیونی مظالم کی وجہ سے درپیش خانی مشکلات سے بہت زیادہ پریشان ہیں۔ عزام سلھب خاندان کی کسی خوشی غمی میں شریک نہیں ہوسکتے جس کا انہیں بہت زیادہ دکھ ہے۔ ان کے شوہر گذشتہ تین سال سے اپنے اہل خانہ کی خوشی اور غمی میں شامل ہونے سے محروم ہیں۔
قابل فخر شخصیت
ام نعمان نے کہا کہ میں نے زندگی کا ایک طویل عرصہ ڈاکٹر عزام سلھب کے ساتھ Â ان کی شریک حیات کے طورپر گذارا۔ میں نے انہیں ایک دین دار اور ملک وقوم سے محبت کرنے والا پایا۔ میرے شوہر نے اپنی زندگی کے 15 سال صہیونی زندانوں میں گذاردیے۔ کئی سال تک وہ فلسطین سے لبنان بے دخل کیے گئے جہاں انہوں نے مرج الزھور میں جلا وطنی گذاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹرعزام سلھب نہ صرف ایک سیاسی رہنما ہیں بلکہ ایک دین دار مذہبی مبلغ ہیں۔ وہ جیل سے باہر بھی ہوں تب بھی اپنا زیادہ سے زیادہ وقت دین اور ملک و قوم کی خدمت میں گذارتے ہیں۔ پورم قوم میں ان کی غیرمعمولی قدرو منزلت ہے۔
ام نعمان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرعزام ایک مذہبی مبلغ اور مجاھد ہیں اور ان کی بہ طور مجاھد زندگی انتہائی خوبصورت ہے۔
وہ ایک خوبصورت اور بلیغ مبلغ ہیں۔ جب وہ جیل سے باہر ہوتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جمعہ کی نماز کا خطبہ دیں اور امامت کریں۔ ان کی تقریر سے متاثر افراد انہیں تلاش کرتے پھرتے ہیں کہ وہ جمعہ کہاں پر جمعہ پڑھاتے ہیں۔ وہ کئی سال تک الخلیل یونیورسٹی لیچکرار ہیں۔ اس طرح ان کی زندگی ایک مجاھد، مبلغ اور سیاست دان کے ساتھ صہیونی زندانوں میں پابند سلاسل رہنے والے رہنما ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ام نعمان نے کہا کہ ان کے شوہر اپنی بیٹی کی شادی کی خوشی میں شرکت نہیں، اس طرح وہ اپنے اہل خانہ کی اس خوشی سے محروم رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ان کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ جزیرہ نقب میں قید تھے۔ وہ اپنے والد کی وفات کے وقت بھی جیل میں قید تھے اور انتظامی حراست کے تحت پابند سلاسل تھے۔ وہ نہ اپنی والدہ کا آخری دیدار کرسکے اور نہ والد کےجنازے کوکندھا دے سکے ہیں۔
بلند حوصلہ اور عزیمت
ڈاکٹر سلھب کے 36 سالہ بیٹے نعمان نے اپنے والد کی اسیری کے حوالے سے بتایا کہ ان کے والد Â عمر رسیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی بیماریوں کا بھی شکار ہیں اس کے باوجود وہ عزیمت کے پہاڑ اور بلند حوصلے کے مالک ہیں۔ انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں میں گذرا۔ اپنے تمام اہل وعیال کو ہمیشہ صبر کی تلقین کرتے اور اللہ سے اس کے اجرکے طلب گار تھے۔
نعمان کا کہنا ہے کہ میرے والد ہم سے جیل میں ملاقات کے دوران بہن بھائیوں اور والدہ کی صحت کے بارے میں استفسار کرتے اوران کی دینداری کے بارے میں بھی سوال جواب کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ فلسطینی قوم اور پوری مسلم امہ کے بارے میں بھی فکرمند ہیں۔ وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ ساتھ اپنے ملک ، قوم اور مقدسات کے حوالے سے غیرمعمولی طور پر فکر مند رہتے ہیں۔
خیال رہے کہ ڈاکٹر عزام سلھب کی پیدائش 1956ء کی ہے۔ وہ فلسطین کے الخلیل شہر میں پیدا ہوئے مگر مدینہ منورہ کی اسلامی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی جہاں انہوں نے اسلامی یونیورسٹی مدینہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ واپسی پرانہوں نے بیت المقدس کی یونیورسٹی میں لیکچرار کے طور پرخدمات انجام دینا شروع کیں۔ وہ الخلیل شہر میں علماء رابطہ کونسل کے چیئرمین اور الخلیل کی اسلامی فلاحی آرگنائزیشن کے بھی وائس چیئرمین ہیں۔