رام اللہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) مسلسل گیارہ ماہ تک پیدل کئی ممالک سے گذر کر فلسطین پہنچنے والے سویڈن کے سماجی کارکن کو صیہونی ریاست نے فلسطین داخل ہونے سے روک دیا۔
بنجمن لاڈرا سویڈن کے ایک سرکردہ سماجی کارکن ہیں۔ یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے لاڈرا نے گیارہ ماہ قبل اپنے ملک سے فلسطین کے لیے پیدل سفر شروع کیا۔ وہ کئی ممالک سے گذر کر فلسطین داخل ہوئے تو صیہونی فوج نے انہیں حراست میں لے لیا ہے۔لاڈرا جمعہ کو علی الصباح اردن کے راستے شاہ حسین پل عبور کرکے فلسطین داخل ہوئے جہاں اسرائیلی فوج نے انہیں چھ گھنٹے تک حراست میں رکھا جس کے بعد انہیں وہاں سے بے دخل کر دیا۔
سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ’فیس بک‘ پر پوسٹ ایک بیان میں لاڈرا نے کہا کہ ’اسرائیلیوں نے مجھے میری منزل مقصود تک پہنچنے سے روک دیا۔ مجھ سے چھ گھنٹے تک سوال جواب کرتے رہے۔ بعد میں مجھے ایک نوٹس دیا گیا جس میں لکھا گیا تھا کہ آپ کو فلسطینی علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘۔
بنجمن لاڈرا نے بتایا کہ اسرائیلی حکام نے مجھے فلسطین داخل ہونےسے دو وجوہات کی بناء پر روکا۔ اول یہ کہ مجھ پر الزام عائد کیا گیا کہ میں نے جھوٹ بولا ہے۔ دوم یہ کہ میں رام اللہ کے نواحی علاقے النبی صالح میں جانا چاہتا ہوں جہاں فلسطینی ہر ہفتے صیہونی آباد کاری، ریاستی دہشت گردی اور دیوار فاصل کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ گیارہ ماہ تک مسلسل پیدل سفر کرنے والے سویڈش کارکن کو فلسطین میں داخلے سے روکنے پر دکھ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں نے پورے سفر میں کئی شہروں میں قیام کیا۔ لوگ مجھ سے میرے سفرکے بارے میں بات کرتے تو میں انہیں کہتا کہ صیہونی ریاست فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی سنگین پامالی کررہی ہے اور میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ان کے ملک میں جا رہا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج میں اسرائیل سے پوچھتا ہوں کہ اسے ایک نہتے اور طویل پیدل سفر کرنے والے سویڈش شہری سے کیوں کر خوف لاحق ہے۔ مجھے فلسطین میں داخل ہونے سے کیوں روکا گیا۔ کیا میں اسرائیل کی سلامتی کے لیے اتنا بڑا خطرہ ہوں۔
سفر کا آغاز
فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والے سویڈش سماجی کارکن بنجمن لاڈرا نے گیارہ ماہ قبل سفر شروع کیا۔ وہ دنیا کے پہلے شخص ہیں جنہوں نے 4800Â کلومیٹر کا طویل سفر پیدل فلسطین چل کر فلسطین پہنچنے کا عزم کیاÂ اور قریبا ایک سال پیدل چلنے کے بعد فلسطین پہنچے۔
انہوں نے سفر کا آغاز چھ اگست 2017ء کو سویڈن سے کیا۔ اس کے بعد وہ جرمنی، آسٹریا، سلوینیا، ترکی اور قبرص سے ہو کر فلسطین پہنچے۔
لاڈرا کا رہائشی تعلق سویڈن کے شمالی شہر ’اومیو‘ سے ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سنہ 2017ء میں فلسطین کے لیے سفر کا مقصد 1917ء میں فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کے لیے منظور کیے گئے ’معاہدہ بالفور‘ کے ایک سو سال پورے ہونے پر کیا۔
اس کے اس مشن کا مقصد فلسطینی قوم کے خلاف صیہونی ریاست کے ڈھائے جانے والے مظالم پر عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانا ہے۔
سویڈن کے سماجی کارکن بنجمن لاڈرا نے اپنا منفردÂ سفر گذشتہ برس اگست میں ’گوٹیروگ‘ سے شروع کیا ہے جہاں وہ چند روزہ سفر میں ’لینکو بینگ‘ پہنچا ہے۔ وہاں سے وہ جرمنی اور اس کے بعد آٹھ ملکوں کو عبور کرکے فلسطین پہنچے گا۔
لاڈرا نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی جنگوں کے دوران فاسفورس بمبوں کی بارش کی، اسپتال، اسکول اور شہری تنصیبات پر وحشیانہ حملے کیے، ایمبولینسوں، زخمیوں اور امدادی کارکنوں کو نشانہ بنایا اور امدادی آپریشن میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ محصورین غزہ تک امداد پہنچانے کی کوششوں کو روکا۔ افسوس یہ ہے کہ فلسطینیوں کو نہ تو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں اور نہ انہیں عالمی قوانین کے ذریعے تحفظ حاصل کرنے دیا جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نہتے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل نے جو کچھ کیا اس نے مجھے دلی طور پر بہت دکھی کیا ہے۔ اس لیے میں نے ایک طویل سفر پیدل چل کر دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے فلسطینی بھی انسان ہیں۔ ان کے بھی حقوق ہیں۔ اسرائیل ان کے خلاف جو کچھ کررہا ہے وہ سب غیرانسانی ہے۔ دنیا میرے اس پیدل سفر کی بدولت مسئلہ فلسطین کے حل کی طرف توجہ دے۔
بنجمن لاڈرا کا کہنا ہے کہ سویڈن قوم سمیت دنیا کی بیشتر اقوام مسئلہ فلسطین کی حقیقت سے آگاہ نہیں۔ وہ اپنے پورے سفر میں فلسطین کا پرچم لہراتا جائے گا۔ لوگ اس کے سفر کے بارے میں پوچھتے ہیں اور وہ انہیں بتاتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ کیا ہے؟َ ظالم کو اور کون مظلوم ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ سویڈن سے فلسطین پہنچنے تک سات سے آٹھ ملکوں سے گذرے۔