فلسطین کے ان ان گنت قابل ذکر تاریخی مقامات میں ایک خوبصورت مقام ’’دارالضرب‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ بھاری پتھروں کو تراش خراش کر بنایا گیا ایک تاریخی عجوبہ ہے جو سیاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے کے سلفیت شہر میں اقع ’’دارالضرب‘‘ اپنے رنگ، ہیت ترکیبی، تراش خراش، بناوٹ، خوبصورت دیواروں کے باعث فن تعمیر کا شاہکار ہی نہیں بلکہ اپنی خوبصورتی میں بھی کمال کی کشش رکھتا ہے۔
طلوع ہوتے آفتاب کی روپہیلی کرنیں جب اس پر پڑتی ہیں تو اس کی رونق اور خوبصورتی کو مزید چارچاند لگ جاتے ہیں۔ دارالضرب کے چبوترے اور اس کے سنگ وخشت موتیوں کی طرح چمک چمک جاتے ہیں۔
دور سے دیکھنے والے اسے مٹی کا ایک تودہ ہی سمجھے گا مگر جوں جوں اس کےقریب جاتے جائیں گے اس کی کشش دل دماغ کو اپنا اسیر بناتی چلی جاتی ہے۔ اس کی غاریں، دیواریں اور بھاری بھرکم پتھر اپنی بناوٹ اور خوشمنائی میں بے نظیر ہیں۔
اگرچہ فلسطینی اتھارٹی اور عالمی اداروں کی لاپرواہی اور غفلت کے باعث ’’دارالضرب‘‘ جہاں صہیونیت کے نرغے میں ہے وہیں اس کی حفاظت اور مرمت کا کام بھی متاثر ہے۔ مگر اب بھی ’’ ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک‘‘ کے مصداق سلفیت میں بنی قراوۃ بلدیہ کے فلسطینی چیئرمین ’’عزیز عاصی‘‘ دن رات ’’دارالضرب‘‘ کی حفاظت میں مشغول ہیں۔ عاصی جہاں اس مقام کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت سے آگاہ ہیں وہیں فلسطینیوں کے نزدیک اور کی سیاحتی اہمیت سے بھی واقف ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ سلفیت کی زیارت کرنے والا کوئی بھی مقامی یا غیرملکی ’’دارالضرب‘‘ کی سیر کیے بنا واپس نہ جائے۔
دارالضرب جسے بنی القراوہ کے مقامی شہری ’’ چھوٹا چٹانی گھر‘‘ بھی کہتے ہیں ایسا غارنما مقام ہے جس کے اندر اور باہر بھاری پتھر لگے ہوئے ہیں۔ اس کی اصل تاریخ کا پتا نہیں تاہم بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جگہ ہزاروں سال پرانی ہے۔ اس کی قدامت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ مرور زمانہ کے ساتھ دارالضرب کے پر مٹی کے تودے چڑھ چکے ہیں۔
بنی قراوہ کے فلسطینی میئر عزیز عاصی نے کہا کہ ’’دارالضرب‘‘ ایک تاریخی اور ثقافتی تحفہ ہے۔ اسے ’’کرنسی ڈھالنے کا مقام‘‘ بھی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ فلسطینیوں کا خیال ہے کہ قدیم رومن دور میں اس جگہ پر چاندی اور سونے کے سکے ڈھالے جاتے تھے۔
فلسطینی مورخ اور تجزیہ نگار خالد معالی کا کہنا ہے کہ ’’دارالضرب‘‘ رومن دورمیں بنایا گیا۔ یہ 150 میٹر پر مشتمل ایک چٹانی گھر ہے جس کے اندر پتھروں کو تراش کر کمرے بنائے گئے ہیں۔ اس میں متعدد قبریں بھی ہیں۔ تاریخی نقش ونگار سےمزین اس کی چٹانی دیواریں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ یہ جگہ کئی زمانوں کا چشم دید گواہ ہے۔
خالد معالی کا کہنا ہے کہ فلسطین کے دیگر تاریخی مقامات کی طرح ’’دارالضرب‘‘ بھی یہودیت اور صہیونیت کے خطرے کا سامنا کر رہا ہے۔ کسی دور میں یہاں پر قیمتی نوادرات تھیں جنہیں صہیونیوں نے چوری کر لیا ہے۔ صہیونی حکام نے اس جگہ کو سلفیت سے الگ تھلگ کرنے کی سازشیں شروع کر رکھی ہیں اور اس کے آس پاس یہودی کالونیاں بنانے کا عمل جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے لا تعداد دیگر تاریخی مقامات کی طرح ’’دارالضرب‘‘ بھی صہیونیت کے خطرے کا سامنا کر رہا ہے۔