غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) امریکا، اسرائیل اور بعض عرب ممالک کی جانب سے بہ ظاہر لگتا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے مجوزہ امن منصوبے’صدی کی ڈیل‘ کو نافذ العمل کرنے پر متفق ہیں چاہے انہیں اس کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ چکانا پڑے۔
عبرانی زبان میں شائع ہونے والے موقر اسرائیلی اخبار ’اسرائیل ھیوم‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اردن، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی قیادت نے ’صدی کی ڈیل‘ کے عنوان سے میڈیا میں مشہور امریکی امن منصوبے کی مکمل تائید اور حمایت کی ہے۔اسرائیلی اخبار کے مطابق امریکی مندوبین جارڈ کوشنر اور جیسن گرین بیلٹ نے عرب ممالک کے دورے کے دوران ان کے سامنے’صدی کی ڈیل‘ نامی اسکیم کی تفصیلات پیش کیں۔ ان ممالک کی مقتدر قیادت نے امریکی امن اسکیم کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ چاہے فلسطینی صدر محمود اس اسکیم کو تسلیم نہ بھی کریں تب بھی وہ اس کی حمایت کریں گے اور اس کے نفاذ میں مدد فراہم کریں گے۔
اخبار نے ذمہ دار سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ابو مازن[محمود عباس] کی مخالفت اور عدم قبولیت کے باوجود مصر، اردن، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو امریکی امن منصوبے پر کوئی اعتراض نہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جارڈ کوشنر نے مصری صدرالسیسی اور اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ سے ملاقاتوں میں یقین دلایا ہے کہ امن منصوبے میں فلسطینیوں کے حقوق کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ ابو مازن کی مخالفت کے باوجود علاقائی ممالک کی جانب سے منصوبے کی حمایت کی جا رہی ہے۔
امریکی مندوبین نے حالیہ ایام میں عرب ممالک کے دورے کے دوران ان کا موقف سنا اور انہیں اپنے موقف سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر بڑے عرب ممالک کی جانب سے صدی کی ڈیل کے حوالے سے حیرت انگیز حمایت سامنے آئی۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ صدی کی ڈیل کی حمایت کرنے والے عرب ممالک فلسطینی اتھارٹی اور صدر عباس پر بھی منصوبے کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی نظرانداز
فلسطینی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا ’صدی کی ڈیل‘ منصوبے کو ہرصورت میں آگے بڑھاتے ہوئے اسے نافذ کرنا چاہتا ہے چاہے فلسطینی اتھارٹی اسے قبول کرے یا مسترد کردے۔ دوسری جانب امریکا فلسطینی اتھارٹی کو اس معاملے میں بہ ظاہر نظرانداز کرتا دکھائی دیتا ہے۔
تجزیہ نگار عدنان ابو عامر نے ’مرکزاطلاعات فلسطین‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اور امریکا کے درمیان ایک دوسرے پر الزامات اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ امریکا ’صدی کی ڈیل‘ کے باب میں فلسطینی اتھارٹی کو نظرانداز کررہا ہے۔
تجزیہ نگار عماد ابو عواد نے بئی ابو عامر کے موقف کی تائید کی اور کہا کہ امریکی انتظامیہ’سفارت کاری کے بغیر تنہائی‘ کے اصول پر قائم ہے۔ دوسرے الفاظ میں امریکا صدی کی ڈیل کے حوالے سے فلسطینیوں کے ساتھ سفارت کاری کے اصول پر قائم نہیں۔ امریکا کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی کو اشاروں کنایوں میں یہ پیغام دیا جا چکا ہے کہ وہ صدی کی ڈیل کو تسلیم کرے ورنہ اسے اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے گا۔
تجزیہ نگار ایمن الرفاتی کا کہنا ہے کہ محمود عباس کے کردار کو نظرانداز کرنا اس بات کا اظہار ہے کہ فلسطین کے مستقبل کے بارے میں کوئی نیا فیصلہ کرنے کے لیے عرب ممالک اور امریکا خود کو بڑے کھلاڑی سمجھتے ہیں۔ میڈیا میں آنے والی خبروں نے اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ امریکا عرب ممالک کے ساتھ مل کر صدی کی ڈیل کو نافذ کرنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کا داخلی صف بندی یا قومی یکجہتی کے حوالے سے طرز عمل منفی ہے۔ انہوں نے غزہ کے عوام کے خلاف اپنی انتقامی سیاست کو تبدیل نہیں کیا اور بار بار کےاحتجاج کے باوجود غزہ پر فلسطینی اتھارٹی کی پابندیاں برقرار ہیں۔
عرب ممالک کی توجہ دیگر مسائل پر
ابو عامر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ عرب ممالک کی توجہ بعض دوسرے ممالک پر متفق دکھائی دیتی ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس کے پاس دو آپشن ہیں۔ یا تو وہ صدی کی ڈیل اسکیم کو قبول کرے یا اسے کھل کر مسترد کردے۔ تاہم یہ واضح ہے جب تک فلسطینی اس اسکیم پر دستخط نہ کریں گے امریکی اسے نافذ نہیں کرسکتے۔
الرفاتی اک کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ قضیہ فلسطین کے تصفیے کے لیے راہ ہموار کررہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدی کی ڈیل قضیہ فلسطین کا تصفیہ کرنا کی کوشش ہے جب کہ فلسطینی اتھارٹی الجھن کا شکار ہے۔ ایک طرف صدی کی ڈیل کو قبول کرنے کے عوض بعض اقتصادی مراعات اور مالی مفادات ہیں جن سے فلسطینی اتھارٹی استفادہ کرسکتی ہےیا قضیہ فلسطین کو اس کی حقیقی روح کے مطابق حل کرنے کا میدان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدی کی ڈیل صرف فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان کوئی معاہدہ کرانے کی کوشش کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسا فارمولہ ہے جس کے ذریعے امریکا عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے امریکا عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام پر مجبور کررہا ہے۔
صدی کی ڈیل اور غزہ کی پٹی
عدنان ابو عامر نے ایک دوسرے سوال کے جواب میں کہا کہ امریکا، اسرائیل اور بعض علاقائی قوتیں غزہ کی پٹی کے بحران سے فلسطینی اتھارٹی کو بائی پاس کرتے ہوئے نمٹنا چاہتی ہیں۔ غزہ کی پٹی پر فلسطینی اتھارٹی کی پابندیوں کے باعث امریکا بھی صدر عباس سے مایوس ہے۔
عواد ابو عواد نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کو نظرانداز کرکے غزہ کو ڈیل کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہÂ امریکا اور صہیونی اپنے بعض دوسرے حلیفوں کے ساتھ مل کر غزہ کو فلسطین سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح اسرائیل کو فلسطین کے سب سے بڑے آبادی والے علاقے کے حوالےسے اپنی ذمہ داریوں سے فرار کا موقع فراہم کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے داخلی حساب کتاب میں غزہ ایک الگ تھلگ علاقہ ہےÂ اور اسے مزید پابندیوں کے سخت کرنے کے عمل سے ڈیل کیا جائے گا۔
ترکی میں ایردوآن کی کامیابی کے اثرات
فلسطینی تجزیہ نگار صلاح العواودہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ترکی میں حالیہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات اور ان میں صدر طیب ایردوآن کی کامیابی بھی ’صدی کی ڈیل‘ پر اثر انداز ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ ترکی میں امریکی، اسرائیلی اور عرب ممالک کے حمایت یافتہ عناصر کو شکست فاش ہونے کے بعد ان تمام پشت پناہ قوتوں کو مایوسی کا سامنا ہے۔
ترکی میں طیب ایردوآن ایک ایسے وقت میں ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں کہ امریکی حکومت’صدی کی ڈیل‘ کو حتمی شکل دینے کا دعویٰ کررہ ہے۔ ترکی میں انتخابی نتائج عرب ممالک کے مشرق وسطیں میں اپنے من پسند مشن پر کاری ضرب ہے۔
ترک صدر یہ کہہ چکے ہیں کہ مشرق وسطیٰ عرب، امریکا اور اسرائیل پر مشتمل اتحاد کے کھیل کا میدان نہیں بلکہ یہاں اور بھی کھلاڑی موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سائیس پیکو‘ معاہدے کا دور گذر چکا اور اب فلسطینیوں کو تنہا کرنے یا ان کے بنیادی مطالبات کو نظرانداز کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔
العواودہ کا کہنا تھا کہ ترکی مشرق وسطیٰ میں ایک موثر طاقت ہے اور اس نے موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کے لیے بعض پالیسیوں کو تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ امریکا نے ترکی کے دباؤ پر کردوں کی پشت پناہی روکی۔ امریکی دباؤ کے باوجود روس کے میزائل ڈیفنس پروگرام ’ایس 400‘ کے حصول کا معاہدہ، فلسطینیوں کے حوالے سے مضبوط موقف ایسے اقدامات ہیں جو ٹرمپ اور اس کے حواریوں کو آسانی کے ساتھ صدی کی ڈیل کو نافذ کرنے کا موقع نہیں دیں گے۔