غزہ – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) یکم مئی 2017ء کواسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے ایک نیا ضمنی منشور جاری کیا جسے جماعت کی متغیر پالیسی بھی کہا جاسکتا ہے۔
حماس کی اس نئی دستاویز اور پالیسی پر فلسطین، عرب دنیا اور عالمی سطح پر مختلف آراء سامنے آرہی ہیں۔ حماس کے نئے ضمنی منشور کے بارے میں تاویلیں جاری ہیں۔ اسے حماس کے ماضی، حال اور مستقبل کے پیمانے پر ناپا جا رہا ہے۔ حماس کے نئے منشور پر فلسطین اورحماس کے بارے میں آگاہی رکھنے والے مبصرین کی ماہرانہ رائے لی ہے۔’بنیادی اصول اور سیاسیات عامہ‘ کے عنوان سے جاری کردہ اس نئی پالیسی پر مختلف زاویوں سے بات چیت کی گئی۔
مجموعی طور پرحماس کے نئے منشور کو فلسطین، عرب دنیا اور عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حماس کا نیا منشور زمینی حقائق سے کافی حد تک ہم آہنگی رکھتا ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات ماہرین نے کہا کہ حماس کا نیا منشور اس اس امرکا ثبوت ہے کہ حماس کوئی جامد فکر جماعت نہیں بلکہ وہ حالات کےمطابق اپنے طریقہ کار اور بعض اقدامات میں تبدیلی کو ضروری سمھجتھی ہے۔ یوں حماس نے فطری تغیر کا راستہ اپنایا۔ حماس کو ادراک ہوا ہے کہ پورے خطے، عرب دنیا اور عالمی سطح پر حالات بدل رہے ہیں۔ ان بدلتے حالات اور تبدیل ہوتے تقاضوں کے پیش نظرحماس نے بھی اپنی پالیسی میں لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس کا نیا منشور علاقائی اور عالمی سطح پر سراہا گیا۔
امتیازی پیش رفت
فلسطین کے سیاسی تجزیہ نگار اور دانشور بلال الشوبکی نے بتایا کہ حماس کا نیا منشور امتیازی نوعیت کی قابل قدر پیش رفت ہے۔ اس پیش رفت کے ذریعے حماس نے خود کو حالات سے ہم آہنگ رہنے ، قوم سے وابستگی، علاقائی اور عالمی سطح پر اپنا تعلق مزید مضبوط بنانے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔
ایک دوسرے فلسطینی تجزیہ نگار اور عرب ۔ امریکن یونیورسٹی سے وابستہ ماہر تعلیم ایمن یوسف نے کہا کہ حماس نے نیا منشور کئی سال کے سفر کے بعد جاری کیا ہے۔ یہ منشور حماس کو لگنے والے کئی جھٹکوں کے بعد سامنے آیا ہے۔ یہ منشور مقامی، علاقائی اور عالمی تغیرات سے نہ صرف ہم آہنگ ہے بلکہ اس کا رد عمل ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ایمن یوسف کا کہنا تھا کہ حماس نے خود کو مسلسل تغیر پسند ایک اسلامی تحریک کے طور پرپیش کیا ہے۔ اس نئے منشور کا مقصد جماعت کے لیے حالات سےنمٹنے اور عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کے نئے افق پیدا کرنا ہے۔
اسرائیلی امور کے ماہر تجزیہ نگار صلاح الدین العوادہ کاکہنا ہے کہ حماس نے خارجی رد عمل کے تناسب کے اعتبار سےکوئی زیادہ تبدیلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ایک نپی تلے منشور میں ماضی کی نسبت قدرے زیادہ محتاط رد عمل ظاہر کیا گیا ہے۔ تاہم حماس نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ جامد تحریک نہیں بلکہ حالات کے مطابق اپنی پالیسی اور موقف میں تبدیلی اور لچک کی صلاحیت رکھتی ہے۔
غیرمعمولی ’بریک تھرو’؟
تینوں فلسطینی تجزیہ نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حماس کا نیا منشور عالمی سطح پرکوئی غیرمعمولی ’بریک تھرو‘ یا پیش رفت تو ثابت نہیں ہوگا۔ حماس کے ترمیم شدہ منشور کے باوجود عالمی برادری، بین الاقوامی ادارے وار یورپی ممالک حماس کو تسلیم نہیں کریں گے تاہم یہ ضرور ہے کہ نئے منشور کے بعد حماس کے خلاف عالمی سطح پر وہ شدت نہیں رہے گی جو ماضی میں پائی جاتی رہی ہے۔
تجزیہ نگار الشوبکی کا کہنا ہے کہ حماس نے نیا منشور جاری کرکے گیند دوسروں کے کورٹ میں پھینک دیا ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو یہ کہہ کرحماس کو مطعون کرتے تھے کہ جماعت عسکریت پسندی کے سوا اور کسی راستے یا حل کی قائل نہیں کے منہ بند کردیے ہیں۔ حماس نے اپنے تبدیل شدہ منشور میں یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ 67ء کی حدود میں آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے تصور کوتسلیم کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ دو ریاستی حل کو تسلیم کرنے کے قریب قریب ہے۔
تجزیہ نگار العوادہ کا کہنا ہے کہ حماس کو بھی اندازہ ہے کہ اس کا تبدیل شدہ منشور عالمی سطح پر کوئی بہت بڑا ’بریک تھرو‘ نہیں بن سکتا تاہم اس سے کچھ حلقے مطمئن ضرور ہوں گے۔ خاص طور پر وہ عرب ممالک کو سنہ 1967ء سے پہلے والی پوزیشن پر اسرائیل کو واپس لانے اور دو ریاستی حل کے مطالبے میں پیش پیش ہیں۔
ایمن یوسف کا کہنا ہے کہ نیا منشور حماس کو عالمی، عرب ممالک اور مسلم دنیا کی سطح پر ایک نیا اور وسیع میدان مہیا کرے گا۔ خاص طورپر جب حماس نے اخوان المسلمون سے اپنی وابستگی کا اظہار کیے بغیر اپنے اسلام پسندانہ اصول کو اپنانے کا اعلان کیا ہے تو وہ بہت سے حلقوں کے لیے قابل قبول ہوگا۔
سیاسی شراکت
فلسطینی تجزیہ نگاروں نے کہا کہ حماس نے اپنا نیا منشور جاری کرکے فلسطینی قوم کی طرف ایک نئے انداز میں ہاتھ بڑھایا ہے۔ نئے منشور کے ذریعے حماس نے گیند تحریک فتح کی کورٹ میں پھینک دی ہے۔ اب یہ فیصلہ فتح کی قیادت کو کرنا ہے کہ آیا وہ قومی مفاہمت کے لیے حماس کےساتھ طے پائے سابقہ معاہدوں پر کیسے اور کب تک عمل درآمد کو یقینی بناتی ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار ایمن یوسف کا کہنا ہے کہ حماس نے اپنے نئے منشور میں تمام فلسطینی سیاسی جماعتوں کو بار دگر مفاہمت کی دعوت دی ہے۔ حماس کایہ موقف قابل قدر ہے کہ وہ فلسطین کے سیاسی نظام کو تازہ خون دینے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔
تجزیہ نگار الشوبکی کا کہنا ہے کہ حماس کی طرف سے تمام سطحوں پر سیاسی شراکت کا فیصلہ جمہوری مفاہیم سے قربت کے ساتھ ساتھ خدشات ور اندیشوں کو بھی ختم کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگا۔