’بیت لحم (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) میری پیاری ماں صہیونی قید سے میری رہائی تک زندہ رہنا، دوران حراست تشدد کے ایسے المناک مراحل سے گذرا کہ ایک ایک دن میں سو سو بار موت جیسے تفکلیف اٹھاتا، میں نے دوران حراست ایک کمبل کے ذریعے اپنی زندگی ختم کرنے کی کوشش کی مگرمیں آج بھی زندہ ہوں‘۔
یہ تمام تاثرات اسرائیلی زندان میں قید ایک فلسطینی شہری 47 سالہ ناصر کے ہیں اور ان کا اظہار اس نے اپنی والدہ سے مسلسل 21سال کے بعد ہونے والی ملاقات کے دوران کیا۔رپورٹ میں ناصر کی اسیری اور اس کے ساتھ برتے جانے والے وحشیانہ سلوک پر روشنی ڈالی ہے۔ سنہ 1993ء میں عائدہ پناہ گزین کیمپ سے باہر نکلا تو اس وقت اس کی عمر 21 سال تھی۔ ناصر اس وقت بھی راہ خدا میں شہادت کا متمنیÂ اور وطن پر اپنی جان نچھاور کرنے کے جذبے سے سرشار تھا مگر شہادت اس کا مقدر نہیں تھی البتہ اس کا عزم اسے ایک وحشیانہ تشدد سہنے کی طرف لے جا رہا تھا۔ عائدہ کیمپ میں واقع اپنے گھر سے نکلنے کے بعد اس کی قیدو بند اور تشدد و اذیت کا نہ ختم ہونے والا سفرشروع ہوا۔ گرفتاری کے بعد اس پر اسرائیلی فوج نے ایک اسرائیلی فوجی افسر کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا اور اسی الزام میں اس کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور عمر قید کی سزا دی گئی۔
ملاقات سے محرومی کے 20 سال
بال تو سفید تھے ہی مگر ناصر کی والدہ اپنے جواں سال بیٹے کی اسیری کے غم میں اس طرح ہلکان ہوئیں کہ ان کی آنکھیں بھی سفید ہوگئیں۔
الحاجہ مزیونہ نے کہا کہ صیہونی حکام نے مجھے مسلسل بیس سال بیٹے سے جیل میں ملاقات سے محروم رکھا۔ پہلے سات سال کے بعد سے ہر دو سال کے بعد ایک بار ملاقات کی اجازت دی گئی۔ یہ سلسلہ بیس سال تک جاری رہا۔ اب ہرماہ مجھے بیٹے سے ملنے کی اجازت دی گئی مگر اب میں بہت ضعیف ہوں۔ آنکھوں کی بینائی بھی ختم ہوچکی ہے۔
اسیر کی ماں کا کہنا ہے کہ میرا بیٹا مجھ سے پوچھتا ہے کہ داڑھی کے ساتھ میری شکل کیسی ہے تو میں کہتی ہوں بہت خوبصورت ہے حالانکہ میری نظر بہت کمزور ہوچکی ہے۔
جیل ایک موت
دیگر فلسطینی اسیران کی طرح ناصر بھی طویل قید کے باوجود اپنی رہائی سے مایوس نہیں۔ رہائی کے وقت وہ گریجوایشن کا طالب علم تھا اور اس نے انگریزی کا مضمون منتخب کیا تھا۔ اسیری کے بعد اس نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور اب سیاسیات کے شعبے میں ایم اے کرچکا ہے۔
پرانے اسیران میں شامل ہونے کے علی الرغم اسرائیل نے ناصر کی رہائی سے انکار کردیا ہے۔ فلسطینی تنظیموں کی طرف سے متعدد بار یہ معاہدے کئے گئے معاہدوں میں ناصر کا نام شامل کیا گیا مگرصیہونی دشمن ہر بار یہ کہہ کر ان کا نام مسترد کردیتے کہ ناصر کو جیل ہی میں رہنا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسیری ایک موت ہے اور ان کا ایک ایک دن موت سے کم نہیں۔
عجیب وغریب خواہش
الحاجہÂ مزیونہ کا کہنا ہے کہ ناصر سے اس کی ملاقات کے دوران عجیب وغریب فرمائش کی اور کہا کہ ’امی اگرآپ کے پاس ملک الموت آئے تو اسے کہنا کہ وہ جب تک میرا بیٹا جیل سے رہا نہیں ہوتا اس وقت تک میری روح قبض نہ کرے‘۔ میں نے بیٹے سے کہا کہ کیا تم یہ سب کچھ عقل وخرد کے مطابق کررہے ہو تو اس نے کہا کہ میری ماں میری رہائی سے قبل دنیا سے نہ جانا‘۔
76 ام العبدÂ سے پوچھا گیا کہ وہ بیٹے کے تاثرات پر کیا سوچتی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ صیہونی میرے بیٹے کو قید سے رہا کردیں کیا ربع صدی کی اسیری کافی نہیں۔