مقبوضہ بیت المقدس ( فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) امریکا نے 14 مئی 2018ء کو فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے تابوت میں ایک اور کیل اس وقت ٹھونک دی جب مقبوضہ بیت المقدس کی تاریخی، اسلامی، عرب اور جغرافیائی حیثیت کو نظرانداز کرتے ہوئے وہاں پرامریکی سفارت خانہ قائم کیا گیا۔
القدس میں امریکی سفارت خانہ فلسطینی قوم کی امنگوں کا خون کرنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی، فلسطینی قوم کے حق خود ارادیت پر ڈاکہ اور فلسطینی قوم کی لاشوں پر قائم کیا گیا۔اگرچہ عالمی سطح پر امریکی حکومت کے اس متنازع اور ناقابل قبول اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔
القدس میں امریکی سفارت خانہ ایسی حالت میں قائم کیا گیا شہرمقدس سے چند سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع غزہ کی پٹی کی مشرقی سرحد پر ایک ملین سے زائد فلسطینی جمع تھے جو اپنے حق واپسی کے لیے پرامن احتجاج کر رہے تھے۔ ان پرامن فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج نے طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا جس کے نتیجے میں ساٹھ سے زاید شہری شہید اور تین ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔
امریکی حکومت نے عالم اسلام کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا ہے۔ امریکی حکومت نےسفارت خانہ منتقلی کے ڈرامہ کے لیے 14 مئی کا دن منتخب کیا۔ یہ دن فلسطینی قوم کی یادوں میں ہمیشہ منحوس تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وہ روز سیاہ ہے جب 14 مئی 1948ء کو ارض فلسطین میں اسرائیلی ریاست کا ناسور گاڑھا گیا۔ اس نام نہاد اسرائیلی ریاست کی آڑ میں ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھر بار اور صدیوں سے ملکیتی اراضی سے محروم کر دیا گیا۔ آج ان فلسطینیوں کی تعداد بڑھ کر 60 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔
گذشتہ برس جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں 193 ملکوں میں سے128 نے القدس کو امریکا کا دارالحکومت قرار دینے کی مخالفت کی۔ مخالفت کرنے والوں میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے امریکا کے حلیف ممالک بھی شامل ہیں۔ تاہم عالمی دباؤ اور مخالفت کے باوجد ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی قوانین کو دیوار پر مارا اور 14 مئی کو امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کر کے تاریخ کا ایک نیا سیاہ باب رقم کیا ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس دو حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کے مغربی حصے پر اسرائیل نے سنہ 1948ء کی جنگ کے بعد غاصبانہ تسلط جمایا جب کہ 1967ء کی جنگ میں مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کر لیا گیا۔ سنہ 1980ء میں اسرائیل نے متحدہ القدس کو اسرائیلی ریاست کا ابدی دارالحکومت قرار دیا تاہم آج تک امریکا سمیت عالمی برادری اسرائیل کے اس دعوے کی مخالفت کرتی آئی ہے۔ فلسطینی قوم نے القدس کی آزادی کے لیے ہرسطح پر مزاحمت کی۔ القدس فلسطین میں اٹھنے والی انقلابی تحریکوں اور انتفاضہ کا عنوان بنتا رہا۔
گذشتہ برس 6 دسمبر کو جب امریکی صیہونیت نواز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے القدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پرتسلیم کیا تو فلسطینی قوم نے ایک نئی تحریک انتفاضہ شروع کی۔ اب تک اس تحریک کے دوران 140 فلسطینی شہری شہید کیے جا چکے ہیں۔ ہزاروں زخمی اور گرفتار کیے گئے۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ القدس شہر کو دو بار صفحہ ہستی سے مٹایا گیا۔ 23 بار اس کا محاصرہ کیا گیا،52 بار جنگوں کا میدان بنا، 44 بار اس پر قبضہ کیا اور آزاد کرایا گیا، ہر بار اس پر قبضہ کرنے والوں کو منہ کی کھانا پڑی اور آخری فتح اس کے اصل باشندوں یعنی فلسطینی قوم کو ملی۔ آج بھی فلسطینی قوم پورے عزم اور جرات کے ساتھ القدس کی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مظلوم فلسطینی شہداء کی لاشوں پر اپنا سفارت خانہ قائم کیا ہے، جلد یا بہ دیر صیہونیوں اور امریکیوں کو القدس سے اپنا بوریا بستر گول کرنا ہو گا۔