فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اکیسویں صدی میں جدید سہولیات سے محروم یہ گاؤں زیادہ دور افتادہ بھی نہیں۔ ’جفتلک‘ نامی یہ قصبہ فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس کے قریب اور وادی اردن کے وسط میں آباد ہے۔
مقامی فلسطینی یونین کونسل کے چیئرمین عثمان العنوز نے بتایا کہ کس طرح’جفتلک‘ کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی شہریوں نے کئی بار گاؤں کو بجلی فراہم کرنے کی درخواست دی مگر قابض اسرائیلی انتظامیہ نے مقامی شہریوں کی بجلی اور پانی کی فراہمی کی درخواستیں مسترد کر دیں جب کہ فلسطینی اتھارٹی بھی اس گاؤں کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے بے اعتنائی کا مظاہرہ کررہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں جفتلک کے مقامی رہنما نے کہا کہ اسرائیل نے اس گاؤں کے قریب سے بجلی کی لائنیں گذار کر یہودی کالونیوں کو بجلی فراہم کر رکھی ہے۔ ایک آدھ بار مقامی آبادی کو کہا گیا تھا کہ حکومت انہیں بجلی فراہم کرنے کی تیاری کررہی ہے مگر عملا اس بارے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ گاؤں کو بجلی کا ٹرانسفارمر فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا جسے مسترد کردیا گیا۔
مسلسل ٹال مٹول
عثمان العنوز نے کہا کہ ’جفتلک‘ کی آبادی 5 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ گاؤں میں چند ایک گھروں کو بجلی فراہم کی گئی تھی مگر وہ انتہائی محدود وقت کے لیے تھی جس کے بعد مکمل طور پر بجلی بند کردی گئی ہے۔ شہر کے باشندے آج بھی پتھر کے دور میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی انتظامیہ اور فلسطینی اتھارٹی دونوں جفتلک گاؤں کے ہزاروں باشندوں کے ساتھ دھوکہ کر رہے ہیں۔ سنہ 2013ء میں گاؤں کی دیہی کونسل نے کوششیں کرکے اسرائیلی حکومت اور فلسطینی توانائی بورڈ سے ایک ٹرانسفارمر منظور کرایا تھا۔ فلسطینی انتظامیہ کی طرف سے انہیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ حکومت دو ماہ کے اندر اندر انہیں بجلی کے لیے ٹرانسفارمر مہیا کرے گی۔ اس یقین دہانی کے دو ماہ بعد اسرائیلی محکمہ آثار قدیمہ کے اہلکار گاؤں میں آئے اور کہا کہ یہاں پر بجلی کی فراہم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے بعد تین سال سے وہ مسلسل گاؤں کو بجلی اور پانی کی سپلائی کے لیے کوششیں کررہے ہیں مگر اسرائیلی حکومت ہٹ دھرمی اور فلسطینی اتھارٹی کھلم کھلا لا پرواہی اور پرلے درجے کی غفلت کا مظاہرہ کررہی ہے۔ مقامی نمائندے جب بھی فلسطینی انتظامیہ کے سامنے بجلی کا معاملہ پیش کرتے ہیں تو وہ ٹال مٹول کردیتے ہیں۔
عثمان العنوز کا کہنا تھا جفتلک کو بجلی اور پانی کی عدم فراہمی کے نتیجے میں مقامی زراعت اور دیگر شعبے بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
پانی کا بحران
جفتلک گاؤں کے ایک مقامی کاشت کار نے بتایا کہ گاؤں میں ’عین شلبی‘ نام کا ایک پرانا میٹھے پانی کا کنواں ہے مگر وہاں پر اب پانی کی مقدار بہت کم رہ گئی ہے۔ مقامی آبادی دور دور سے گھروں میں ڈھو کر پانی لانے پر مجبور ہے۔ بجلی کی عدم فراہمی کے باعث وہ مقامی سطح پر زیرزمین پانی کے حصول میں بھی ناکام ہے۔ اگر گاؤں کو بجلی فراہم کی جائے تو پانی کا بحران بھی حل ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت نے مقامی زراعت کو بری طرح تباہ کیا ہے۔ مقامی کسان اپنی اراضی کو غیر آباد چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ پانی کی قلت نے نہ صرف زراعت کے پیشے کو متاثر کیا ہے بلکہ صحت کے بھی مسائل پیدا کیے ہیں۔
انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے محکمہ آب رسانی سے مطالبہ کیا کہ وہ جفتلک میں پانی کی قلت دور کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرے اور اسرائیل پر دباؤ ڈالنے سمیت پانی کے بحران کے حل کے لیے کوششیں تیز کرے۔ مقامی کسان کا کہنا تھا کہ گاؤں کے قرب وجوار میں موجود پانی کے بیشتر کنوئیں صہیونی فوج اور یہودی آباد کاروں کے زیرتسلط ہیں اور فلسطینی آبادی کو ان کنوؤں اور چشموں سے پانی کے تصرف کا حق نہیں دیا جاتا ہے۔