حالیہ ایام میں غرب اردن کے شمالی شہر نابلس میں ایک ہی وقت میں صہیونی بھیڑیا صفت غاصبوں اور گلی کوچوں میں پھرنے والے آوارہ کتوں نے ایک بار پھر فلسطینی آبادی کا جینا حرام کردیا ہے۔ دن ہو یا رات کوئی ہر وقت گلیوں میں پھرنے والے ان آوراہ کتوں سے فلسطینی شہری متاثر ہیں۔
سماجی تحفظ کا فقدان
حال ہی میں غرب اردن کے شمالی شہر نابلس میں المساکن کالونی میں آوارہ کتوں کی ایک ریوڑ نے ایک مقامی فلسطینی طالب علم محمد السائح پر حملہ کرکے اسے شدید زخمی کردیا۔ اس واقعے نے مقامی آبادی کا سماجی تحفظ جان کی حفاظت کو ایک بار پھر خطرے میں ڈال دیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہÂ حالیہ ایام میں کئیÂ طلباء آوراہ کتوں کے حملوں کا شکار ہوچکے ہیں۔
محمد السائح کی والدہ نے بتایا کہ اس کا بیٹا گذشتہ منگل کو اپنے بھائی کے ساتھ اسکول سے واپس آ رہا تھا کہ اس وران آوارہ کتوں نے ان پر حملہ کردیا۔ دونوں بھائیوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی مگر کتے آگے بڑھے اور محمد السائح کو زمین پر گرادیا اور اس کے بری طرح بنھبھوڑ ڈالا۔
السائح کی والدہ نے بتایا کہ اس کا بیٹا چیختا چلاتا انتہائی بری حالت میں کتوں کے نرغے میں تھا۔ اس کی چیخوں کی آواز محلے کے لوگوں نے سنی۔ چیخ پکار پر لوگ اس کی طرف دوڑے اور کتوں کے چنگل سے اسے نجات دلائی۔
السائح کی والدہ نے بتایا کہ اس کے بیٹے کو اسپتال منتقل کیا گیا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ کتوں کے کاٹے کے اسے گہرے زخم آئے ہیں اور یہ زخم اس کی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اگر اس کا مناسب علاج نہیں ہوتا تو السائح کو فالج بھی ہوسکتا ہے۔
السائح نے استفسار کیا ہے کہ فلسطینی آبادی ان آوارہ کتوں کے رحم وکرم پر کب تک رہے گی۔ مقامی شہری آبادی کی جان و مال کو خطرات لاحق ہیں اور ان کتوں نےسماجی امن بھی تہہ وبالا کر رکھا ہے۔
حقیقی خطرہ
ایک مقامی فلسطینی خاتون سمیر الوادی نے کہا کہ آوارہ کتوں کا معاملہ بہت بڑی مصیبت ہے اور اسے ہرصورت میں ختم ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ان آوارہ کتوں سے مکمل نجات نہیں مل جاتی اس وقت تک مقامی فلسطینی آبادی کو شدید خطرات لاحق رہیں گے۔
سمیرالوادی نے کہا کہ آوارہ کتے نہ صرف بڑی عمر کے افراد کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ان سے بچوں کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر نماز فجر کی ادائیگی کے لیے گھر سے مسجد جاتے ہیں اور ان آوارہ کتوں کے خوف سے لاٹھی ہاتھ میں رکھتے ہیں کیونکہ آئے روز ان کا واسطہ ان کتوں سے پڑتا ہے۔
الوادی نے بتایا کئی بار آوارہ کتوں نے ان کے شوہر حملے کی کوشش کی بھی کی۔
ایک مقامی فلسطینی ڈاکٹر عبدالکریم حشاش نے بتایا کہ محمد السائح کا کیس اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ آوارہ کتوں کے حملوں سے کئی فلسطینی بچے، خواتین اور نوجوان زخمی ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر حشاش نے کہا کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آوارہ کتوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں کے لیے آوارہ کتے ایک سنجیدہ خطرہ ہیں۔
ایک سوال کےجواب میں انہوں نے کہا کہ آوارہ کتے آبادیوں ، سڑکوں اور ویران علاقوں میں ہرطرف پائے جاتے ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے جہاں سرکاری اور مقامی نجی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا وہیں شہریوں کو بھی اس حوالے سے احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئےآوارہ کتوں سے نمٹنے کے لیے اداروں کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔
الحشاش نے کہا کہ آوارہ کتوں کے خطرات پر قابو پانے کے لیے دیگر حفاظتی اقدامات کے ساتھ سڑکوں پر گوشت ، روٹیاں اور ہڈیا پھینکنے سے سختی سے گریز کرنا ہوگا ہوگا ورنہ یہ آوارہ کتے مقامی فلسطینی آبادی کا جینا حرام کیے رکھیں گے۔