بیروت – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) ویسے تو اقوام متحدہ کی جانب سے لاکھوں فلسطینی مہاجرین کی فلاح بہبود، ان کی تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات کی دیکھ بحال کے لیے’یو این ریلیف اینڈ ورک ایجنسی ‘ (اونروا) کے نام سے ادارہ کئی سال سے قائم ہے مگرجب اس ادارے کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو ہرطرف شکایات کے انبار دکھائی دیتے ہیں۔
کبھی فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپوں قائم کردہ اسکولوں میں اساتذہ کو تنخواہیں نہیں مل رہیں اور کھی پناہ گزینوں کو اسپتالوں میں طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ’اونروا‘ کو ڈونر ممالک کی طرف سے فنڈز نہیں مل رہے، اس لیے وہ ریلیف کی سرگرمیاں سے قاصر ہے۔ بہر کیف طرح طرح کے حیلے اور بہانے ہیں جن کی حقیقت کچھ اور ہے۔عالمی برادری کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد میں کمی ضرور آئی ہے مگر اس کمی کو پورا کرنا’اونروا‘ کی اخلاقی نہیں بلکہ ایک لازمی ذمہ داری ہے۔
’اونروا‘ کی مجرمانہ غلفت اور لاپرواہی کی مثالیں بیان کرنے کے لیے ایک طویل دفتر درکار ہے۔ رپورٹ میں اونروا کی مجرمانہ اور دانستہ غفلت اور لاپرواہی کے ایک چونکا دینے والے واقعے پر روشنی ڈالی ہے۔
یہ واقعہ لبنان کے دارالحکومت بیروت کے قریب واقع ’نہر البارد‘ پناہ گزین کیمپ کی رہائشی ایک 11 سالہ بچی کا ہے جو چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں سے نہیں بلکہ مسلسل کئی سال سے اونروا کی مجرمانہ لاپرواہی کا شکار رہی اور آخر کار یہ غفلت بچی کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔
منیٰ عثمان کی المناک داستان
اونروا کی لاپراہی کا شکار گیارہ سالہ فلسطینی بچی منیٰ عثمان کی لرزہ خیز اور المناک داستان انسانی حقوق کی تنظیموں اور فلسطینیوں کی امداد دینے والے ممالک کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔
مسلسل سات سال کی بیماری کے بعد منیٰ عثمان صرف اپنے پرور دگار ہی سے شکوہ کناں ہے۔
منیٰ عثمان کے والد فرید عثمان نے بتایا کہ اس کی بچی چار سال کی تھی جب اچانک شدید بخار کا شکار ہوئی۔ اس کے بعد سے آج تک وہ مسلسل اس کا علاج کرانے کے لیے اسپتالوں کے چکر لگا لگا کر تھک گئے ہیں۔ بچی کا مرض ایسا لاعلاج بھی نہیں، مگرکہیں بھی اس کی شنوائی نہیں۔
فرید عثمان نے بتایا کہ منیٰ چار سال کی تھی جب اسے شدید بخار ہوا۔ اسے ایک قریبی اسپتال لے جایا گیا جہاں تین دن تک وہ داخل رہی۔ تین روز کے بعد اسے اسپتال سے خارج کردیا گیا۔ چند دن اس کی حالت بہتر رہی مگر اچانک دوبارہ اسے شدید بخار شروع ہوگیا۔ وہ دن اور آج کا دن منیٰ عثمان اور ہمارا پورا خاندان اسپتالوں کے چکر لگا رہا ہے۔
مرض کی تشخیص
فرید عثمان نے بتایا کہ کئی ماہ تک اسپتالوں میں داخل رہنے اور طرح طرح کی ادویات کے استعمال کے باوجود ڈاکٹر اس کی بیماری کی تشخیص میں ناکام رہے۔ ڈاکٹر اسے سکون آور گولیاں دیتے مگر سنجیدگی کے ساتھ اس کی بیماری کی چھان بین کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ کافی تگ و دو اور مسلسل مطالبوں کے بعد ڈاکٹروں نے پتا چلایا منیٰ کو تپ دق کی بیماری کے ساتھ ساتھ اس کے دماغ میں پانی ہے۔
فرید عثمان نے بتایا کہ میں بیٹی کو ایک لمحے کے لیے بھی اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ میں نے ڈاکٹروں سے اپیلیں کہ کہ وہ بیٹی کی سرجریں کریں مگر ان کی آہ و فریاد کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہوئی۔ در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد بچی کی سرجری تو کی گئی مگر یہ سرجری بجائے مریضہ کی تکلیف دور کرنے کے ایک نئی مصیبت ثابت ہوئی۔اچانک ایک دن اچانک یہ خبر بجلی بن کرگری منیٰ کا آدھا جسم مفلوج ہوچکا ہے جس کے بعد اس کی حرکت مزید کم ہوگئی ہے۔
اسپتالوں کی ٹھوکریں
عثمان نے بتایا کہ منیٰ کو فالج ہونے کے بعد پورا خاندان ایک نئی مشکل سے دوچار ہوگئے۔ اس کا آدھا جسم مفلوج ہوچکا تھا اور خود سے اس کا چلنا تو درکنا وہ اپنے سہارے کروٹ بھی نہیں لے پاتی تھی۔ ہم اس کا زندہ جنازے اٹھائے کبھی ایک اسپتال میں جاتے اور کبھی دوسرے کی ٹھوکریں کھاتے، اسپتال انتظامیہ کی جھڑکیاں سنتے مگر بچی کےعلاج کے لیے کوئی بھی تیار نہ ہوتا۔ جس اسپتال میں جاتے اس کی انتظامیہ پہلا سوال یہ کرتی کہ اس بچی کے علاج کے لیے’اونروا‘ کی طرف سے کس قسم کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ مگر ہم اونروا کی طرف سے کسی خدمت کی یقین دہانی نہیں کراسکتے تھے کیونکہ اونروا کی طرف سے منیٰ کے علاج میں تعاون سے غیراعلانیہ انکار کردیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ رواں فروری میں اسے ایک بار پھر ایک نئے اسپتال میں لے جایا گیا۔ منیٰ کے والد نے کھلے الفاظ میں الزام عائد کیا کہ اس کی بچی کے علاج میں لاپرواہی کا ذمہ دار اقوام متحدہ کا ادارہ’اونروا‘ ہے جس کی طرف سے لبنانی اسپتالوں میں بچی کے علاج کے لیے جس طرح کی طبی سہولیات کی فراہمی کی ضرورت تھی اس کا عشر عشیر بھی فراہم نہیں کیا گیا۔
فرید عثمان نے کہا کہ منیٰ کو انتہائی نہگداشت میں طویل علاج کی ضرورت Â تھی Â مگر بچے کو ایک عام سے کمرے میں رکھا گیا جہاں کسی قسم کی طبی سہولت نہیں تھی اس مجرمانہ لا پرواہی نے ان کی بچی کی جان لے لی۔
اونروا کی مجرمانہ لاپرواہی کی ان گنت مثالوں میں منیٰ عثمان کی موت کا واقعہ نہ صرف ادارے کے مدارالمہام کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے بلکہ اس ادارے کے ذریعے امداد دینے والے ممالک کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔