آیۃ الشمعہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس کے حوالے سے امریکا اور اسرائیل کی پالیسی میں ہمیشہ یکسانیت رہی۔ القدس کے حوالے سےامریکی پالیسی اسرائیل نوازی پر مبنی رہی ہے۔
حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےاقوام متحدہ کی فلسطین اور القدس بارے قراردادوں کونظرانداز کرکے بیت المقدس کواسرائیلی ریاست کا دارالحکومت قرار دے دیا۔ مگرماضی میں دیکھا جائے تو امریکا نے اسرائیلی مفادات کو مد نظررکھنے کے باوجود بعض مواقع پرجنرل اسمبلی میں بعض قراردادون کی منظوری میں مدد کی۔رپورٹ میں امریکا کی تاریخی القدس پالیسی پر روشنی ڈالی ہے۔ اس رپورٹ سے یہ اندازہ لگانے میں مدد ملے گی کہ آیا امریکا کس طرح قدم بہ قدم صیہونیوں کی طرف داری کررہا ہے۔
سنہ 1917ء سے 1948ء تک
اعلان بالفور 1917ء سےÂ لے کر 15 مارچ 1948ء میں قیام اسرائیل تک القدس کے حوالے سے امریکی پالیسی درج ذیل نکات میں بیان کی جاسکتی ہے۔
اول: اعلان بالفور کے بعد امریکا بھی صیہونی ایجنسی کی پشت پرکھڑا ہوگیا اور یہودیوں کی فلسطین بالخصوص القدس میں آباد کاری میں تیزی لانے کے لیے برطانیہ پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا۔ امریکی حکومتوں نے یورپی ملکوں اور مغربی دنیا میں آباد یہودی نوجوانوں، ماہرین فنون، تاجروں، دانشوروں اور دیگر پیشوں کے ماہرین القدس میں آباد کرنے کی مہم میں حصہ لیا۔
دوم: امریکا نے صیہونی ایجنسی کی فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی پالیسی کی حمایت شروع کر دی۔
سوم: امریکی حکومت نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر شدید دباؤ ڈالنا شروع کیا تاکہ وہ فلسطین کی تقسیم کے فارمولے کی حمایت کریں۔ القدس کو صیہونیوں کا مسکن بنانے کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ سنہ 1947ء میں جنرل اسمبلی ْ کی قرارداد 181 کی منظوری میں بھی امریکیوں کا ہاتھ شامل رہا۔ اس قرار داد میں فلسطین کی صیہونی اور فلسطینی عرب ریاست کے درمیان تقسیم کی حمایت کی گئی تھی۔
چہارم: فلسطین میں صیہونی ریاست کےقیام کے صرف گیارہ منٹ میں 15 مئی 1948ء کو امریکا نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ ابھی اسرائیل کی طرف سے تسلیم کیے جانے کی درخواست بھی نہیں دی گئی تھی کہ اس سے قبل ہی امریکا نے پہل کرتے ہوئے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرلیا۔
سنہ 1948ء سے 1967ء تک کی پالیسی
سنہ 1948ء میں اسرائیلی ریاست کے قیام سے لے کر سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ تک امریکا کی جانب سے صیہونی ریاست کی دامے درمے سخنے مدد اور حمایت جاری رہی۔
فلسطین کی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے سنہ 1967ء میں القدس پر اسرائیلی قبضے تک امریکا نے اسرائیل کی مدد جاری رکھی۔
اس دوران امریکا نے فلسطینی پناہ گزینوں کے معاملے پر توجہ مرکوز رکھی تاہم القدس کے حوالے سے امریکی توجہ کم ہوگئی۔
سنہ 1950ء میں امریکا، برطانیہ اور فرانس نے مشترکہ طور پر ایک بیان جاری کیا جس میں صیہونی ریاست کی سلامتی کی مشترکہ ضمانت دی گئی۔ یہ بیان اس وقت جاری کیا گیا جب مغربی بیت المقدس پر اسرائیل نے اپنا قبضہ کرلیا تھا۔
سنہ 1953ء میں جب اسرائیل نے وزارت خارجہ کا ہیڈ کواٹر تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کا اعلان کیا تو اس پر امریکا نے باضابطہ احتجاج کیا۔ امریکا کو خدشہ تھا کہ سوویت اسرائیل کے اس اقدام کے بعد مصر جیسے موثر عرب ممالک کو اپنے قریب لا سکتا ہے۔ اس طرح مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
امریکا نے القدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے گریز کی پالیسی اپنائے رکھی۔ امریکا کی پالیسی کا مقصد عربوں کو قریب کرنا ہرگز نہیں بلکہ اسرائیل کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو وفاء کرنا تھا۔ شروع ہی سے امریکا اسرائیل کا طرف دار رہا۔ امریکا نے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے والے ملکوں پر فیصلہ تبدیل کرنے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔
جنگ سنہ 1967ء کے بعد کا مرحلہ
اس مرحلے میں امریکا کی اسرائیل اور القدس کے حوالے سے پالیسی درج ذیل نکات میں پیش ہے۔
سنہ 1963ء تا 1969ء
اس عرصے میں امریکا میں لینڈون جونسن صدر تھے۔
صدر جونسن کے دور کی امریکی پالیسی کو مشرق وسطیٰ میں عرب۔ اسرائیل کشمکش سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اس مرحلے میں امریکا نے القدس کے معاملے پر زیادہ توجہ دی۔ اسرائیلی ریاست کی حمایت میں جوہری تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ جب اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس پربھی قبضہ کرلیا تو اس کے بعد امریکا کی القدس کے حوالے سے سابقہ پالیسی ہی قائم رہی۔
اس پالیسی کو درج ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے
امریکی صدر جونسن نے 19 جون 1967ء کو اپنی ایک تقریر میں کہا کہ بیت المقدس میں موجود تین مقدس مقامات کو ان کے خصوصی مفادات کے مطابق مکمل طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔
صدر جونسن کی انتظامیہ کے دور کا خطرناک باب واشنگٹن کی القدس کے حوالے سے تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتی پالیسی تھی۔ امریکا بھی اسے سیاسی تنازع کے بجائے مذہبی تنازع ماننے لگا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا القدس میں تینوں آسمانی مذاہب کے پیروکاروں کی یکساں رسائی کا علم بردار بن گیا۔ صدر جونسن نے مغربی بیت المقدس کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلیا اور کہا کہ بات صرف مشرقی بیت المقدس پر ہی کی جا سکتی ہے۔
چار جولائی 1967ء کو امریکی وزارت خارجہ نے جنرل اسمبلی میں منظور ہونے والی قرارداد 2253 اور 14 جولائی 1967ء کی قرارداد 2254 کی حمایت میں ووٹ ڈالنے سے گریز کیا۔ ان دونوں قراردادوں میں القدس میں اسرائیلی سرگرمیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
سنہ 1968ء سے 1972ء تک
اس دوران امریکی صدر نکسن نے اپنے پیش رو جونسن کیÂ اسرائیل اور القدس کے حوالے سے پالیسی بر قرار رکھی۔ اس وقت کے امریکی وزیرخارجہ ’ولیم روجرز‘ نے سنہ1969ء میں ایک نیا فارمولہ پیش کیا جسے ’روجرز پرگرام‘ کا نام دیا گیا۔
اپنے اس فارمولے میں روجرز نے القدس کے حوالے سے کہا کہ بیت المقدس کے مستقبل کا فیصلہ تمام اسٹیک ہولڈرز بالخصوص اردن اور اسرائیل کے باہمی مشورے سےہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ القدس کے معاملے میں فیصلہ کرتے ہوئے خطے کے دوسرے ممالک اور عالمی مفادات کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ وہ القدس کے مستقبل کے حوالے سے ایک فریم ورک پیش کریں گے جس میں القدس کو مشترکہ شہر قرار دیا جائے گا۔ اس شہر کے تمام انتظامی کنٹرول مشترکہ طور پرانجام دیے جائیں گے۔ القدس کو مشترکہ شہر قرار دینے کے لیے یہودی، مسلمان اور عیسائیوں کے مذہبی جذبات کا لحاظ رکھا جائے گا۔ تاہم شہر کے انتظامی اور اقتصادی ڈھانچے میں اردن اور اسرائیل کا کلیدی کردار تسلیم کیا جائے گا۔
بعض عرب ممالک نے اس تجویز سے اتفاق کیا تاہم مجموعی طور پر اس فارمولے کے عرب ممالک پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ جب القدس کے معاملے کو سلامتی کونسل کی قرارداد 242سے جوڑا گیا تو فریقین میں اختلافات اور بھی گہرے ہوگئے۔
صدر نکسن کا یہ فارمولہ امریکا کے سابقہ مواقف سے متضاد تھا کیونکہ ماضی میں امریکی حکومتیں القدس میں اسرائیل کی یک طرفہ کارروائیوں کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ امریکی صدر روجرز نے بھی القدس کو مشترکہ شہر رہنے کی ضرورت پر ززور دیا۔ سنہ 1969ء میں سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد میں امریکا نے القدس پر اسرائیل کی یک طرفہ کارروائیوں اور اقدامات کو باطل قرار دیا تھا۔
سنہ 1977ء تا 1980ء
سابق صدر جیمی کارٹر نے القدس کے حوالے سے درج ذیل نکات پر مشتمل پالیسی اپنائی۔
انہوں نے اسرائیل میں سفارتی تبدیلی کو قدم بہ قدم آگے بڑھانے کی تجویز پیش کی۔ اس وقت کے امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے عرب۔ اسرائیل تنازع کے حل کے لیے سفارتی محاذوں پر کام تیز کرنے کی کوششیں کیں۔ تاہم القدس کے حوالے سے جمی کارٹر کا کوئی واضح منصوبہ سامنے نہ آسکا۔
مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرانے میں صدر کارٹر نے اہم کردار ادا کیا مگر اس معاہدے میں بھی القدس پر کسی قسم کی بات چیت نہیں کی گئی اور اسے مستثنیٰ کردیا گیا۔
جمی کارٹر کے دور میں مشرقی القدس کو مقبوضہ علاقہ تصور کیا گیا اور اسے جنگی قانون کے تحت اسرائیل کے زیرتسلط علاقہ قرار دیا گیا۔
سنہ 1981ء تا 1988ء
سنہ 1981ء سے 1988ء تک رونلڈ ریگن امریکا کے صدر رہے۔
صدر ریگن نے اپنے دور میں القدس کے حوالے سے درج ذیل نقطہ نظر اختیار کیا۔
القدس کے معاملے کو عرب۔ اسرائیل تنازع کے حل کے لیے مذاکرات کے آخری ایجنڈے میں شامل کیا گیا۔ القدس کو مذاکرات میں موخر کرنے کا مقصد بیت المقدس کے قضیے کا تصفیہ کرنا تھا۔ یوں امریکا کی طرف سے القدس کو اسرائیل کے متحدہ دارالحکومت کی طرف بڑھنے کی راہ ہموار ہوئی۔
سابق امریکی وزیرخارجہ جارج شولٹز نے القدس کے بارے میں ایک نیا پروگرام پیش کیا۔ اپریل 1988ء کو انہوں نے عرب۔ اسرائیل مذاکرات کے نتائج کا اعلان کیا مگر القدس کے موضوع کو ان مذاکرات سے الگ تھلگ کردیا گیا۔
صدر ریگن کے دور میں القدس کے حوالے سے امریکا کی اسرائیل نوازی میں اضافہ ہوا۔ اس کا اندازہÂ ان کے دور میں سلامتی کونسل کی دو قراردادوں کی منظوری تھی جنہیں امریکا نے ویٹو کردیاتھا۔
سنہ 1888ء تا 1993ء
اس عرصے میں نھجی صدر ریگن کی القدس کے حوالے سے پالیسی برقرار رہی۔
بیت المقدس کو متحد رکھنے پر زور دیا گیا اور اس کی تقسیم کی مخالفت کی گئی۔
عالمی آئینی اداروں کی قراردادوں میں مغربی بیت المقدس پر توجہ کم کردی اور مشرقی بیت المقدس کو تنازع کا محور قرار دے دیا گیا۔
غرب اردن اور بیت المقدس میں صیہونی آباد کاری کی مخالفت میں کمی آگئی۔
عرب ممالک بالخصوص خلیج جنگ کے بعد امریکا اور اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے اپنی من پسند شرائط پیش کرنا شروع کردیں۔
پی ایل او اور اسرائیل کے درمیان اوسلو معاہدہ طے پایا مگر اس میں بھی القدس پر بات چیت کرایجنڈے کے آخر میں رکھنے کی بات کی گئی۔
جارج بش سینیر نے االقدس کے حوالے سے نئی خارجہ پالیسی جاری کی۔ اس میں اگرچہ القدس کو فریقین کے درمیان مذاکرات میں شامل کرنے کی بات کی گئی مگر عملا القدس کے معاملے کو اسرائیلی ریاست کے رحم وکرم پر چھوڑ یا گیا۔
سنہ 1993ء تا 2002ء
سنہ 1993ء سے2002ء بل کلنٹن کا دور ہے۔
صدر بل کلنٹن کے دور میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صیہونی آباد کاری میں شدت آئی اور امریکا کی طرف سے نیم دلانہ انداز میں اس کی برائے نام مخالفت نے صیہونی ریاست کو توسیع پسندانہ عزائم کا نیا حوصلہ دیا۔
امریکا نے اصرار کیا کہ اقوام متحدہ مقبوضہ عرب علاقوں کے تنازع کے حل کی اہلیت نہیں رکھتی بلکہ فلسطین۔ اسرائیل تنازع فریقین کے درمیان مذاکرات اور باہمی رضامندی سے طے کیا جائے گا۔
بیت المقدس کے مقدس مقامات کی سرپرستی اردن کو دے کر فلسطین اور اردن کے درمیان اختلافات کے بیج بونے کی کوشش کی گئی۔
بل کلنٹن کے دور میں کہا گیا کہ بیت المقدس کے مقدس مقامات مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل ہوں گے،نہ کہ بیت المقدس۔
القدس کے معاملے پر بات چیت کو مؤخر کرکے فلسطین۔ اسرائیل مذاکرات میں سہولت کے بجائے مزید پیچیدگیاں پیدا کی گئیں۔
القدس کے معاملے میں عرب۔ اسرائیل تنازع کے باب میں امریکا کا کھلا تضاد سامنے آیا۔
صدر کلنٹن نے یقین دلایا کہ ان کا ملک مقبوضہ عرب علاقوں کے بارے میں اسرائیلی پالیسی کی حمایت کرے گا اور صیہونی ریاست کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔
امریکی کانگریس نے القدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرانے کا بل منظور کیا تاہم اس پرحتمی فیصلے کا اختیار صدر کو دیا گیا۔
سنہ2002ء سے 2008ء
جارج بش جونیر کے دور میں اسرائیل کے لیے امریکی طرف داری اور بڑھ گئی۔ ان کے دور میں امریکی کانگریس نے 30 ستمبر 2002ء کو ایک بل کی منظوری دیÂ جس میں مغربی اور مشرقی بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔
عرب ممالک کی طرف سے رد عمل کی حدت کم کرنے کے لیے امریکی صدر جارج بش نے کہا کہ بل کی شق 214 میں القدس کے معاملے میں جو موقف اختیار کیا گیا ہے وہ ناقابل قبول اور اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے صدر کے دستوری اختیارات دائرے سے باہر ہے۔ حالانکہ صدر بش اس بل پر ایک روز قبل دستخط کرچکے تھے۔ صدر بش نے مزید کہا کہ القدس کے حوالے سے ان کے ملک کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ان کا کہنا تھا کہ القدس کا تنازع فلسطینیوں اوراسرائیل کے درمیان براہ راست مذاکرات ہی میں حل ہوگا۔
صدر بش کے دور میں فلسطین میں جاری تحریک انتفاضہ کو کچلنے کے لیے امریکی ’سی آئی اے‘ کے چیف کو اسرائیل بھیجا تاکہ اسرائیل کے ساتھ نئے سیکیورٹی معاہدوں کے ساتھ فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کو اس وقت تک مؤخر کیا جائے جب تک انتفاضہ ختم اور اسرائیل کی رٹ قائم نہیں ہوجاتی۔
اپریل 2003ء میں صدر بش اور ان کی انتظامیہ کی طرف سے نیا روڈ میپ جاری کیا گیا جس میں فلسطین۔ اسرائیل مذاکرات کےنتیجے میں دو ریاستی حل اور فلسطین میں صیہونی آباد کاری روکنے پر زور دیا گیا۔
چودہ اپریل 2004ء کو صدر بش نے اسرائیلی وزیراعظم ارئیل شیرون کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ نئے زمینی حقائق کی روشنی میں فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کا نتیجہ یہ سامنے آنا چاہیے کہ اسرائیل واپس 1967ء کی سرحدوں پر واپس جائے۔
سنہ 2009ء تا 2013ء
اس عرصے میں باراک اوباما امریکا کے صدرتھے۔ صدر اوباما نے مشرق وسطیٰ کے تنازع کے حل کے لیے اپنے پیشرو جارج بش کی نسبت مختلف پالیسی اپنائی۔ انہوں نے تنازع فلسطین کے حل کے لیے عرب قیادت سے ملاقاتیں کیں۔
تاہم اوباما انتظامیہ کی قضیہ فلسطین بالخصوص القدس کے معاملے میں اسرائیل کی واضح طرف داری جاری رہی۔
صدر اوباما کے دور میں فلسطینی پالیسی درج ذیل نکات پر مشتمل ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کی نفی کی گئی۔
اسرائیل پر دباؤ ڈالنے، زمین اور القدس کے معاملے میں بات چیت سے گریز کیا گیا۔
اسرائیل کو صیہونی ریاست قرار دینے کی تائید کی گئی۔
القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کی حمایت کی گئی۔
عالمی فورمز پر مشرق وسطیٰ کے مسائل پر تقاریر کے دوران القدس کا تذکرہ گول کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی رکنیت کے حصول کے فلسطینی ریاست کو سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی سے رجوع کرنے سے روکاÂ گیا۔
سنہ 2017ء
موجودہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ اپنی تضاد بیانی کی وجہ سے مشہورہیں۔ مشرق وسطیٰ کے تنازعات کے حوالے سے ان کا موقف اسی وقت سامنے آگیا تھا جب ٹرمپ ابھی صدارتی انتخابات کی دوڑ میں شامل تھے۔
ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کے لیے پالیسی نہ تو جارج بش کی طاقت آزمائی کے اصول پر مبنی ہے اور نہ ہی ٹرمپ کی خاموشانہ پالیسی پر بلکہ ٹرمپ اوباما اور بش دونوں کی پالیسیوں کو ساتھ ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی بش اور اوباما کی پالیسیوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ ٹرمپ نے کھل کر صیہونی ریاست کی پشت پناہی اور اعلانیہ اسرائیل کی مدد شروع کی ہے۔ انہوں نے سنہ 1967ء کے اقوام متحدہ میں امریکی مندوب کے فیصلےÂ کی مخالفت کی ہےجس میں مشرقی بیت المقدس، غزہ اور غرب اردن کو مقبوضہ علاقے قرار دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی قراردادوں 181 اور 242 کی بھی خلاف ورزی ہے جو امریکا ہی کے تعاون سے منظور ہوئیں اور ان میں مشرقی بیت المقدس، غرب اردن اور غزہ کو مقبوضہ علاقے قرار دیا گیا۔
اقوام متحدہ نے اپنی قرارداد 478 میں تمام ممالک سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ القدس کے مستقبل کا تعین ہونے تک وہاں سے اپنے سفارتی مشن ہٹا دیں۔ مگر سنہ 1982ء میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے متحدہ القدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا تھا۔ سنہ 1993ء میں طے پائے اوسلو معاہدے میں بھی القدس کو متنازع علاقہ قرار دیا گیا اور اس کا فیصلہ باہمی بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے ذریعے کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
القدس کو صیہونی ریاست کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے بعد اس کے درج ذیل اثرات سامنے آئیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے بعد القدس کے حوالے سے تمام اسلامی اور مسیحی ثقافتی موروثی حقوق منسوخ، عالمی قراردادیں کالعدم ہوجائیں گی اور اسرائیل کو القدس پر اپنا قبضہ مضبوط بنانے اور صیہونی آباد کاری کا نیا موقع ملے گا۔
القدس کے اسرائیلی دارالحکومت بننے کے بعد فلسطینیوں، عربوں اور مسلمانوں کو القدس میں مقامات مقدسہ کی زیارت سے محروم کردیا جائے گا۔
القدس کے حوالے سے عرب اوراسلامی ممالک کی سرپرستی اور فلسطینی محکمہ اوقاف کو ختم کردیا جائے گا۔
بیت المقدس مین اسرائیلی فوج کے اڈے قائم کرنے اور صیہونی فوج کو شہر میں داخل ہونے کا جواز مل جائے گا۔
مسلمانوں کے ایمان کا جزو مسجد اقصیٰ کی شہادت اور اس کی جگہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کے قیام کی راہ ہموار ہوگی۔
اور ہر وہ شہری جس کے پاس اسرائیل کی شہریت نہیں القدس سے بے دخل کردیا جائے گا۔