مقبوضہ بیت المقدس – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) سردی کا موسم آتے ہی دنیا کے دیگر خطوں کی طرح فلسطینی قوم بھی اپنی مخصوص روایات کو زندہ کرتے ہوئے ان روایتی اور غیر روایتی طریقوں کو اپناتی ہے جو روشنی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ حرارت بھی بہم پہنچاتے ہیں۔
فلسطین کے مختلف علاقوں میں پرانے زمانے سے مختلف آلات حرارت استعمال کیے جاتے رہے ہیں جو سردی کے خلاف مزاحمت میں مدد دیتے ہیں۔ ان میں سے بعض چیزیں تو آج بھی اہل فلسطین کے ہاں مروج ہیں۔ بجلی کے جدید ہیٹرز کے آنے کے بعد اگرچہ بعض پرانےدور کے گھروں میں گرمی پیدا کرنے والے آلات متروک ہوگئے ہیں مگر بعض ایسے ہیں جو آج بھی ہر گھر کی ضرورت محسوس کیے جاتے ہیں۔برسوں سے فلسطین میں ’’صوبہ الکاز‘‘ یعنی صوبہ کنستر یا چولہا استعمال ہو تا رہا۔ اس سے بھی پہلے فلسطینی خواتین گھروں کو گرم رکھنے کے لیے انگیٹھیوں میں لکڑی کا استعمال کرتے۔ اگلے مرحلے میں مٹی کے تیل پرروشن اور گرم ہونے والے چولہے متعارف ہوئے۔ جن سے ایک ہی وقت میں کمروں کو گرم اور روشن رکھنے کے ساتھ ساتھ کھانا پکانے کے لیے استعمال کیا جاتا۔
انہی میں ایک نام ’’بابور الکاز‘‘ کا بھی ہے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ چولہا یا لیمپ آج بھی اہل فلسطین کے ہاں سردیوں کا ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ گول دائرے کی شکل میں تیار کردہ اس چولہے میں پہلے دور میں تو لکڑیا جلائی جاتی تھیں مگر بعد میں یہ تیل پر روشن کیا جانے لگا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سویڈن کی ایجاد ہے۔ سویڈش اس کا نام ’’بریموس‘‘ رکھتے ہیں۔ قریبا ایک سو سال تک یہ لیمپ فلسطین کے ہر گھر کی رونق رہا۔
’’البابور‘‘ کی حکایت
بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں’’البابور‘‘ نامی چولہا فلسطین کے تمام علاقوں میں پھیل چکا تھا۔ چھوٹے خاندان اسے اپنے کمروں کو گرم رکھنے، کھانا پکانے اور روشنی کے لیے استعمال کرتے۔ پہلے پہل اس کا استعمال لکڑی کے ذریعے کیا جاتا تھا مگر بعد میں تیل نے لکڑی کے ایندھن کی چھٹی کرادی۔
’’البابور‘‘ کے وسیع پیمانے پر پھیلنےسے گھریلو خواتین کو کافی آرام وراحت محسوس ہوئی۔ چولہوں میں لکڑیاں ڈال کر آگ جلانے کے لیے انہیں پھونکنے، دھوئیں اور اس کی بدبو،راکھ اور اس قبیل کے تمام مسائل سے خواتین کو نجات مل گئی۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی اس کا استعمال زیادہ ہونے لگا اور لوگ بچیوں کو بیاہ کرکے دیتے وقت ساتھ ایک عدد’’البابور‘‘ بھی اس کے جہیز کے سامان میں رکھنا لازمی سمجھتے۔ خواتین اپنی مرضی سے بھی بازاروں میں موجود ’’البابور لیمپ‘‘ خرید کرتیں۔
’’القدس انگیٹھی‘‘
البابور کو بعض فلسطینی علاقوں میں ایک دوسرے نام ’’القدس انگیٹھی‘‘ سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔’’سمکری‘‘ کے نام سے مشہور ہونے والی یہ انگیٹھی بھی کافی مشہور ہوئی اور اسے بھٹی کی شکل میں بھی بنایا گیا تاہم ٹیکنالوجی میں جدت نے السمکری کو بھی جدید پیمانوں میں ڈھالنے میں مدد کی۔ لکڑی کے ایندھن کے بعد مٹی کےتیل اور اس کےبعد گیس پر چلنے والی ’السمکر‘‘ تیار کی جانے لگی۔
بیت المقدس کے پرانے باسی Â انکل ابو توفیق نامی ایک بزرگ کو آج بھی یاد کرتے ہیں۔ ابو توفیق السمکری انگیٹھیاں تیار کرنے میں ماہر تھے۔ وہ نہ صرف گھر پرانگیٹھیاں تیار کرتے بلکہ گھر گھر جا کر پرانی ’’سمکریاں‘‘ مرمت کرتے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی جھکی کمر پر اپنی نئی تیار کردیا انگیٹھیاں بھی لے جاتے۔خواتین ابو توفیق کی تیار کردہ انگیٹھیوں کو بہت پسند کیا کرتیں۔
چچا جمعہ خنفر بھی ایسے ہی ایک بزرگ رہے ہیں جنہوں نے بیت المقدس میں باب السلسلہ کے بازار میں ’’السمکری انگیٹھیوں‘‘ کی تیاری کے لیے ایک دکان بنائی۔ وہ پرانی انیگیٹھیوں کی مرمت کرتے اور نئی بھی تیارکرتے۔ آج ان کی اولاد اسی کام کو آگے بڑھا رہی ہے۔
جمعہ خنفر کا کہنا ہے کہ آج جب بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو لوگوں کو ’’السمکری‘‘ یاد آتی ہے۔ آج کل گھروں میں تیل اور گیس پر چلنے والی ’’سمکری انگیٹھیاں‘‘ اور لیمپ کافی مشہور ہیں۔ یہ سب دیسی ساختہ ہیں۔
بیت المقدس کے مقامی شہری ابو محمد کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی تیزی کے ساتھ ترقی کررہی ہے۔ مگر البابور اور السمکری چولہے ہماری تہذیب وثقافت کی علامات ہیں۔ فلسطینی قوم اپنے آباؤ اجداد کی روایات کو زندہ رکھنے کے لیے اب بھی تیار اور استعمال کرتے ہیں۔