اسیر 14 سالہ بیٹی سے ملاقات کے لیے دن رات اشک بہانے والی ایک فلسطینی دکھیاری ماں ’ام ملاک‘ بھی ہیں، جو اپنی اسیر بیٹی سے ملاقات کے لیے بےقرار ہیں۔
کلب برائے اسیران سے بات کرتے ہوئے چودہ سالہ ملاک محمد الغلیظ کی والدہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور پھوٹ پھوڑ کر رو پڑیں۔
اپنا دکھ بیان کرتے ہوئے ام ملاک نے بتایا کہ صہیونی درندے اس کی معصوم بیٹی جس کی عمر ابھی صرف چودہ سال ہے کو شمالی رام اللہ لے الجلزون کیمپ سے اغواء کرکے لے گئے۔ اب وہ تین ماہ سے اسرائیل کے کسی عقوبت خانے میں پابند سلاسل ہے۔ بچی کے والدین اور دیگر اقارب ملاک کے غم سے نڈھال ہیں۔ خاص طور پرماں کی حالت بہت رقت آمیز ہے۔
اسیرہ کی ماں کا کہنا ہے کہ اسے جب بیٹی کا خیال آتا ہے تو فورا ذہن اس پر ڈھائے جانے والے مظالم کی طرف جاتا ہے۔ نہ جانے اس کی بیٹی کس حال میں ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس پر کیا گذر رہی ہے۔ تین ماہ سے وہ بیٹی کو دیکھنے کو ترس رہی ہے مگر صہیونی سفاک انتظامیہ ایک مامتا کو اس کی کم سن بیٹی سے ملاقات تک کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔
ملاقات کے بجائے دھکے
کم سن فلسطینی اسیرہ ملاک الغلیظ کی والدہ نے ’اسیران‘ ریڈیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں نے اس کی لخت جگر کو 20 مئی کو حراست میں لیا۔ گرفتاری کے بعد اس کی ایک جھلک دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ملاک کو شارون جیل میں ڈالا گیا ہے۔ وہ بیٹی سے ملنے کے لیے کئی بار اس قید خانے گئی مگر ہربار اسے دھکے دے کر واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
دکھیاری ماں کا کہنا ہے کہ اس کی بیٹی کو صہیونی درندے شمالی بیت المقدس کی قلندیا چیک پوسٹ سے اٹھا کر لے گئے تھے۔ گرفتاری کے وقت اس کے دونوں ہاتھوں کو پلاسٹک کی مضبوط رسی کے ساتھ باندھ دیا گیا تھا، اس کے ساتھ ایک انتہائی خطرناک دہشت گرد جیسا سلوک کیا گیا۔
ماں کا کہنا ہے کہ صہیونی فوج کی جانب سے اس کی بیٹی پر جعلی الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کی بھونڈی کوشش کی جا رہی ہے۔ بچی کو کئی بار عدالتوں میں بے رحمانہ اور توہین آمیز انداز میں ایک سنگین مجرم کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ عدالتوں میں پیشی کے دوران بیٹی کے چہرے پر غم، تشدد اور تھکن کے واضح آثار دکھائی دیتے ہیں۔ Â خاتون کا کہنا ہے کہ صہیونی انتظامیہ انہیں بار بار جیل کے باہر سے دھکے دے کر واپس کردیتی ہے۔ دکھی خاندان کے جذبات کا استحصال کیا جا رہا ہے۔
بچپن میں اذیتیں
ملاک محمد الغلیظ پر صہیونی فوج کی جانب سے ایک صہیونی فوجی پر چاقو سے حملے کی کوشش کا الزام عائد کیا ہے۔ دوران حراست کم سن ہونے کے باوجود صہیونی درندوں نے نونہال بچی کو بدترین اذیتیں دی ہیں۔ اسے گالیاں دینے کے ساتھ ساتھ قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔
بچی کو جسمانی تشدد کے ساتھ نفسیاتی اور ذہنی اذیتوں کا بھی سامنا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ملاک الغلیظ کی رہائی کے لیے بار بار اسرائیل سے مطالبہ کیا جاتا رہا ہے مگر صہیونی انتظامیہ نے تمام مطالبات کو پاؤں کی ٹھوکر رسید کی ہے۔ کم سن ہونے کے باعث بچی کی صحت بری طرح بگڑ رہی ہے۔
کم سن اسیرہ
کلب برائے اسیران کے مطابق ملاک محمد الغلیظ اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل چھ ہزار فلسطینیوں میں سب سے کم عمر ہے۔ اگرچہ اسرائیلی جیلوں میں 18 سال سے کم عمر بچوں کی تعداد ساڑھے تین سو سے زاید ہے مگر ان میں سب سے کم عمر ملاک الغلیظ ہے۔ وہ اسکول میں نویں جماعت کی طالبہ ہے۔
ملاک الغلیظ کو اسرائیلی فوج نے شمالی بیت المقدس کی قلندیا چیک پوسٹ سے بیس مئی کو حراست میں لیا تھا۔ اس پر ایک صہیونی فوجی پر چاقو سے حملے کی کوشش کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔