رام اللہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیل کے لیے موزوں محمود عباس کا جانشین کیسا ہوگا؟فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی عمر 82 سال ہوچکی ہے۔ عمر کے اس آخری میں وہ کئی امراض کا بھی شکار ہیں۔ حال ہی میں انہیں ایک ہفتے میں تین بار اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کا معائنہ کرایا گیا۔
صدر عباس کی بیماری کی خبروں کے ساتھ ہی فلسطینی اتھارٹی کےسیاسی حلقوں اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ آیا صدر عباس کا متوقع جانشین کیسا ہوگا؟یہ بحث چند ماہ قبل اس وقت بھی چھڑی تھی جب انہوں نے قومی اتفاق رائے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 30 اپریل کو فلسطین نیشنل کونسل کا اجلاس طلبÂ کیا۔ گوکہ اس اجلاس میں ان کے متوقع جانیشین کا اعلان نہیں کیا گیا۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ محمود عباس اپنے سیاسی آمرانہ فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے نیشنل کونسل پر اپنی گرفت قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ نیشنل کونسل کے بعض ارکان وفات پاچکے ہیں۔ کئی بڑھاپے میں جو اس وقت عضو معطل ہوچکے ہیں۔
اختیارات ختم ہوچکے
اسرائیل کے کثیر الاشاعت عبرانی اخبار ’ہارٹز‘ کے انگریزی ایڈیشن کے صحافیÂ اور تجزیہ نگار عاموس ہرئیل نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ صحت کے ساتھ ساتھ محمود عباس اپنے اختیارات بھی کھو رہے ہیں۔ ان کی بیماری کی خبر سن کر اسرائیل کے سیکیورٹی حلقوں میں ایک نئی تشویش پیدا ہوجاتی ہے۔
اس کی وجہ ہے کہ اس وقت اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کےدرمیان اگر کسی شعبے میں موثر تعاون موجود ہے تو وہ سیکویرٹی کے شعبے میں ہے۔ غرب اردن کے بیشتر علاقوں میں عباس ملیشیا اسرائیلی فوج کی نیابت میں کام کر رہی ہے۔
اسرائیلی سیکیورٹی حکام یہ سوچتے ہیں کہ صدرعباس کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کا متوقع جانشین کیا اسی تندہی کے ساتھÂ سیکیورٹی تعاون جاری رکھے گا۔
عباس ملیشیا اسرائیلی ہدایات پر کاربند
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ محمود عباس کی عدم موجودگی میں اسرائیل کسی ایسی شخصیت کو ان کی جگہ قبول نہیں کرے گا جو ان کے وضع کردہ نقشہ راہ پر چلنے کے بجائے اپنا نیا فریم ورک پیش کرے۔ اسرائیل کی پوری کوشش ہوگی کہ صدر عباس کی جگہ کرسی پر بیٹھنے والا فلسطینی لیڈر پہلی فرصت میں اسرائیل کے ساتھ جاری سیکیورٹی تعاون پر مہر تصدیق ثبت کرے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ محمود عباس کی جگہ کوئی کمزور سیاسی رہنما بھی اسرائیل کے لیے موزوں نہیں ہوگا۔
اب تک صدر عباس کے اسرائیل کے مخالف دعوؤں کے علی الرغم انہوں نے اپنے ماتحت سیکیورٹی اداروں کو اسرائیلی فوج کے ساتھ سیکیورٹی تعاون سے منع نہیں کیا۔ اگرچہ آنے والے کسی فلسطینی لیڈر کے بھی اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون ختم کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا، تاہم جس نہج پر عباس ملیشیا اب کام کررہی ہے وہ ایک طرح کی اسرائیلی احکامات اور اس کی مرضی ہی پر چل رہی ہے۔
فلسطین اوراسرائیل کے سیاسی اور ابلاغی حلقے یہ توقع کررہے ہیں صدر محمود عباس آئندہ دنوں میں فلسطینی اتھارٹی کی قیادت سے استعفیٰ دے سکتے ہیں۔
محمود عباس کے متوقع جانشینوں میں تنظیم آزادی فلسطین کی مرکزی کمیٹی کے ارکان جبریل رجوب، محمود العالول اور محمد اشتیہ جیسے نام شامل ہیں۔
یہ تینوں شخصیات محمود عباس کے مقربین میں شامل ہیں۔ جبریل رجوب فلسطین نیشنل سیکیورٹی کے چیف رہے ہیں۔ وہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے محمود عباس کی بھرپور حمایت کرتے رہے ہیں۔
العالول کو تحریک فتح کے نائب چیئرمین کے عہدے پرفائز کیا گیا۔ وہ فی الحال فلسطینی اتھارٹی سے مربوط نہیں ہیں۔
العالول نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے القدس کے بارے میں اعلان کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ طے پائے تمام معاہدے ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اگر محمود عباس اپنی زندگی میں اختیارات کسی کو سپرد کرتے ہیں تو بھی اسرائیل کے مفید میں ہوگا کیونکہ صدر عباس ایسے ہی شخص کو اپنا جانشین بنائیں گے جوان کی وضع کردی پالیسیوں کو آگے بڑھا سکے۔