غزہ کی پٹی کا علاقہ ایک بار پھر حالت جنگ میں ہے۔ اس حوالے سے حال ہی میں سابق اسرائیلی وزیراعظم شامیر کی یاداشتیں سامنے آئیں۔ ان میں غزہ کے حوالے سے اسرائیل کے آئندہ کے لائحہ عمل پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ فاضل مصنف لکتھا ہے کہ اسرائیل امریکا کی نگرانی میں قضیہ فلسطین کو اپنے منÂ پسند انداز میں حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اسرائیلی ریاست نے فلسطینیوں کے ساتھ طے پائے تمام سابقہ معاہدوں اور سمجھوتوں کو زمین برد کردیا ہے۔ اسرائیلی ریاست ایک ایسے نئے مذاکراتی سراب کی تلاش میں ہے جس آغاز تو امریکا کی نگرانی میں ہونے کا امکان ہے مگر اس کے اختتام کا کوئی پتا نہیں۔
چند روز پیشتر اسرائیل کے قومی سلامتی انسٹیٹیوٹ کے زیراہتمام ’فلسطین اسرائیل تعلقات کا مستقبل‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس میں خصوصی طور پر غرب اردن کے مستقبل پر بات چیت کی گئی۔ اس ساری بحث کا مقصد غرب اردن کو اسرائیل میں ضمن کرنے کی سازشوں کو آگے بڑھانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ متبادل کے طور پر غرب اردن میں فلسطینی اتھارٹی کے محدود اختیارات برقرار رکھنا اور دریائے اردن کے مغربی کنارے میں اسرائیل کو مکمل آزادی عمل فراہم کرنا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ امریکا فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے ساتھ مل کر ایک ایسا معاہدہ کرانے کے لیے کوشاں ہے جس کے تحت اسرائیلی ریاست کو غرب اردن میں وسیع تر اختیارات حاصل ہوں۔ اس کے لیے یہ بہانہ بھی کیا جا رہا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ معاشی مراعات کے بدلے میں کوئی امن معاہدہ کیا جائے۔ اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کی وجہ سے پیداÂ ہونے والے معاشی خلاء کو پُر کرے۔ گوکہ اسرائیل میں فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت موجود ہے مگر ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ایک محدود فلسطینی ریاست کے حل کے خواہاں ہے جس کے پاس اپنا کوئی دفاعی نظام نہ ہو اور وہ غرب اردن کے کل 40 فی صد رقبے سے زیادہ پر نہ پھیلے۔
فلسطین کے مستقبل بالخصوص غزہ کی پٹی کے مستقبل کے حوالے سے اسرائیل مختلف سیناریو کے بارے میں غور کررہا ہے۔ اسرائیلی ریاست کے مجوزہ پلان کو درج ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
اول: اسرائیلی ریاست کے سامنے موجود راستوں میں پہلا آپشن غزہ کے گرد گھیرا تنگ کرنا اور غزہ کے عوام کو اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے پر مجبور کرنا ہے۔
اسرائیلی ریاست کے خیال میں جیسے جیسے غزہ میں مقامی آبادی پر عرصہ حیات تنگ کیا جائے گا ایسے ایسے ہی فلسطینیوں میں حماس کے خلاف غم و غصہ بڑھے گا اور لوگ اپنے مسائل اور مصائب کا ذمہ دار حماس کو قرار دیں گے۔
دوم: یہ کہ فلسطینیوں کے درمیان مصالحت کی آڑمیں فلسطینی اتھارٹی اور من پسند عناصر کو غزہ کی پٹی میں مسلط کرنا ہے تاکہ غزہ میں حماس اور دوسرے گروپوں کے درمیان ایک بار پھر محاذ آرائی شروع ہو جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل غزہ میں مزاحمتی گروپوں کے اسلحہ کو بہانہ اور جواز بنا کر ان کے خلاف بڑی کارروائی کا بھی راستہ اختیار کرسکتا ہے۔
سوم: تیسرا آپشن غزہ پر باقاعدہ جنگ مسلط کرنے کا ہے۔ اگرچہ غزہ پر جنگ مسلط کرنے کا معاملہ ابھی تک اسرائیل کے عسکری اور سیاسی حلقوں میں تنازعات کاشکار ہے۔ تل ابیب موجودہ حالات میں جنگ جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسرائیل کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ غزہ کے مزاحمت کار غزہ کے اطراف کے علاقوں پر بھی اپنا کنٹرول قائم کرسکتے ہیں۔ صیہونی دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ اب محدود نہیں ہوگی بلکہ اس کے کئی اور بھی پُرخطر پہلو ہیں۔
چہارم: اسرائیلی ریاست کے سامنے چوتھا آپشن امریکا کے مجوز امن منصوبے ’صدی کی ڈیل‘ کو عملی شکل دینے کی کوشش کرنا۔ فلسطینی ریاست کو اس کی اصل حدود سے نکال کر جزیرہ نما سینا کی طرف لے جانا۔ غزہ کے عوام کی جدود جہد کو کمزور کرنا ہے۔
پنجم: پانچواں آپشن زیادہ قابل ترجیح ہوسکتا ہے۔ وہ یہ کہ اسرائیل غزہ کے بحران کو کسی سنگین المیے تک پہنچنے سے بچانے کے لیے متبادل ذرائع پر غور شروع کرے۔ حال ہی میں اسرائیلی وزیر مواصلات بھی اس طرف اشارہ کرچکے ہیں کہ غزہ کو ہوائی اڈے اور بندرگاہ کے قیام کے تجویز پرسنجیدگی سے غورکیا جائے۔ بعض اسرائیلی لیڈر اسے مضحکہ خیز تجویز خیال کرتے ہیں جب بعض اسے ایک مثالی حل کے طور پر دیکھتے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں ہوائی اڈے اور بندرگاہ کے کسی منصوبے پرعمل درآمد سے قبل اسرائیلی ریاست جنگ کے ایک دور کو ترجیح دے گی۔
بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی سے جس طرح ڈیل کررہا ہے اس سے ظاہرہوتا ہے کہ وہ غزہ کو فلسطینی علاقہ تصور نہیں کرتا اور اسے الگ تھلگ قرار دینے کی سازشوں میں پیش پیش ہے۔