اسرائیلی اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹ میں صہیونی فوج کی پیشہ وارانہ کم زوریوں پر روشنی ڈالی اور وقت کے تبدیل ہوتے تقاضوں کے پیش نظر فوج کی ساکھ، طاقت اور رعب بٹھانے کے لیے صہیونی ریاست کے مختلف ناکام حربوں کی تفصیل بیان کی ہے۔
جذبہ ختم ہوچکا
عبرانی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ نے اپنی رپورٹ میں ’آئزن کوٹ کا نیا پلان۔۔۔ فوج میں عسکری خدمت کے جذبے کی بحالی کی کوشش‘ کے عنوان سے ایک تفصیلی ایڈیشن شائع کیا ہے۔ اس پلان کے تحت فوجیوں کی خدمات کے تناظرمیں انہیں ان کی صلاحیت اور کارکردگی کی بناء پر کارڈ جاری کیے جاتے ہیں۔ ان خصوصی کارڈز کی مدد سے وہ مختلف جامعات میں تعلیمی کورسز میں شامل ہوسکتے ہیں۔، تعلیم میں کسی دوسرے قریبی عزیز کی مدد کرسکتے ہیں، ڈرائیونگ سیکھ سکتے ہیں اور ایلات شہر سے سیاحتی علاقوں کے ہوٹلوں تک سفر کرسکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج میں مورال کو بہتر بنانے کے اس نئے پلان پرجنوری 2018ء سے عمل درآمد شروع ہوجائے گا۔ اس میں سنجیدہ جنگوں میں حصہ لینے والے اور دشمن کے خلاف جنگوں میں حصہ نہ لینےوالوں کو الگ الگ درجہ بندی میں رکھاجائے گا۔ اسی طرح جو فوجی لڑائیوں میں حصہ لیتے ہیں ان کے ملٹری درجے اور عہدے میں اضافے کے ساتھ ان کی اسناد کو دوسرے فوجیوں کی نسبت زیادہ قابل قدر سمجھا جائےگا۔ ان کی ماہانہ اجرت اور دیگر مراعات بھی بڑھا دی جاتی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا ہے کہ عسکری قیادت تسلیم کرتی ہے فوج میں بھرتی کا رحجان کم ہوتا جا رہا ہے۔ عبرانی ٹی وی 10 نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ملٹری لیڈر شپ کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ لڑکا یونٹوں میں بھرتی ہونے یا خطرناک محاذوں پر کام کرنے والے بریگیڈ میں نئے آنے والوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ زیادہ تر نئے آنے والے فضائی دفاع، بارڈر فورسز، سرچ اور ریسکیو یونٹوں میں جاتے ہیں۔
فوج سے فرار
اسرائیل کے عبرانی اخبار ’یسرائیل ھیوم‘ کے مطابق جولائی اور اگست کے دوران اسرائیلی فوج کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ مسلسل تین سال سے فوج سے فرار اختیار کرنے والے اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عبرانی اخبار کے مطابق رواں سال کے دوران فوج سے فرار کے رحجان میں پچھلے 10 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ دس سال پیشتر بھرتی ہونے یہودی نوجوانوں کی 80 فی صد تعداد لڑاکا یونٹوں میں بھرتی ہونے میں دلچسپی رکھتی تھی۔ اب سرے سے فوج ہی سے فرار اختیار کررہے ہیں۔
اخبارات کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فوج اور مذہبی حلقوں کے درمیان عسکری میدان میں خدمات کے حوالے سے ایک کشاکش موجود ہے۔ بعض یہودی مذہبی تنظیمیں اور گروپ فوج میں خدمات کے مخالفت ہیں۔
حال ہی میں اسرائیلی سپریم کورٹ نے ایک سابقہ قانون کو منسوخ کردیا جس میں مذہبی یہودیوں کو فوج میں خدمات کا استثنیٰ دیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ اسرائیلی عدالت کے نو رکنی بنچ میں سے 8 ججوں نے پارلیمان کا 2015ء میں منظور کردہ قانون منسوخ کردیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ حریدیم یہودی فرقے کے افراد کو فوج میں خدمات سے استثنیٰ حاصل ہے۔
طویل سروس
عبرانی اخبار ’اسرائیل ھیوم‘ کے مطابق آرمی چیف گیڈی ائزن کوٹ نے فوج کی ایلیٹ یونٹوں بالخصوص سیریٹ مٹکال شٹیٹ 13، ریسکیو اورایئر فورس میں کام کرنے والے اہلکاروں کی مدت میں 8 سال کا اضافہ کردیا ہے۔
آئزن کوٹ کا یہ اقدام فوج سے فرار کا موجب بن رہا ہے۔ کیونکہ ان فوجیوں کو دو سال آٹھ ماہ کی لازمی عسکری خدمات اس کےعلاوہ بھی انجام دینا ہوتی ہے۔ یوں فوج میں سروس کے عرصے کی طوالت بھی فوج میں خدمات سے دور رہنے یا بھاگنے کی ایک اہم وجہ ہے۔
فوج کی جانب سے ایک نئے بھرتی پلان کے تحت گیارہویں اور بارہویں جماعت کے طلباء کو بھرتی کرنے کے لیے بڑی عمر کے 9000 نوجوانوں کو مستقل بنیادوں پر بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ رپورٹس کے مطابق بڑی تعداد میں فوج میں بھرتی ہونے کے باوجود آخر میں تربیت مکمل کرنے یونٹوں میں جانے والے اہلکاروں کی تعداد 22 سے 28 افراد کے درمیان ہوتی ہے۔
افواہوں کی جنگ
عبرانی ٹی وی 2 کے مطابق فوج نے ایک نیا پلان بھی تیار کیا ہے۔ اس پلان کے تحت سوشل میڈیا پر فوج کے بارے میں پھیلائی جانے والی افواہوں کا تدارک کرنا ہے۔ صہیونی اخبارات تسلیم کرتے ہیں کہ فوج سے فرار اور سروس سے اجتناب برتنے میں کی ایک وجہ افواہیں بھی ہیں۔
فوج نے ان افواہوں کی روک تھام کے لیے ایک یونٹ تشکیل دی گئی ہے جو فوجیوں کی جعلی ہلاکتوں یا جانی نقصان کے حوالے سے جاسوسوں کی مدد سے معلومات جمع کرکے اس کی روک تھام کی ذمہ دار ہے۔ اسرائیل کے تمام ادارے اس حوالے سے حیران ہیں کہ وہ فوج Â کی صفوں میں روز مرہ کی بنیاد پر ہونے والے نقصان کی مبالغہ آرائی پر مبنی فرضی اور جعلی خبروں کو کیسے روکیں۔