فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق غرب اردن کے شمالی شہر جنین میں سیلہ الحارثیہ سے تعلق رکھنے والے Â 22 سالہ Â سمیح عبدالقادر جرادات نے بتایا کہ اسرائیلی فوج کے ساتھ ساتھ یہودی سیکیورٹی اداروں نے فلسطینیوں کا جینا محال کررکھا ہے۔ جگہ جگہ نام نہاد محصول چونگیاں لگا کر فلسطینیوں جی جیبوں پر ڈالے ڈالے جا رہے ہیں۔
عبدالقاد سمیح نے بتایا کہ غرب اردن سے شمالی فلسطین کے 1948ء کے علاقوں میں جانے کے لیے اسرائیلی فوج نے کئی طرح کی قدغنیں لگا رکھی ہیں۔ جرادات نے بتایا کہ وہ حیران ہیں کہ پہلی بار صہیونی فوج کی طرف سے اسے کہاگیا کہ وہ علاج کے لیے الناصرہ شہر میں جا سکتے ہیں۔ اگرانہیں علاج کے لیے الناصرہ شہر میں جانا ہے تو انہیں اسرائیلی سیکیورٹی کمپنی سے اپنی توثیق کرانا ہوگی۔
جردات نے بتایا کہ ان کے لیے یہ جواب حیران کن تھا۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ صہیونی فوج اور اسرائیلی سیکیورٹی کمپنیوں نے ایک معاہدہ کر رکھا ہے جس کے تحت فلسطینی شہریوں کوایک سے دوسرے شہر میں نقل وحرکت کے لیے نجی سیکیورٹی کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہے۔
جرادات نے بتایا کہ وہ سنہ 1948ء کے علاقے الناصرہ میں کام کے دوران زخمی ہوگئے تھے۔ اس دوران اسپتال میں ان کا معائنہ کیا گیا اور مسلسل چیک اپ کیا جاتا رہا ہے۔ حال ہی میں ڈاکٹروں نے انہیں چیک اپ کے لیے بلایا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ شمالی جنین کی الجلمہ چیک پوسٹ سےالناصرہ کے درمیان کار پر صرف تین گھنٹے کی مسافت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ الجلمہ چیک پوسٹ پر پہنچے تو اسرائیلی فورسزنے انہیں سیکیورٹی کمپنی کی طرف رجوع کرنے کا کہا۔ جب انہوں نے کمپنی سے رجوع کیا تو کمپنی کی طرف سے کہا گیا کہ وہ الناصرہ شہر میں جانے کے لیے ہزارون شیکل کی رقم کی ادائیگی کے بغیرنہیں جا سکتے۔
بھاری رقوم بٹورنے کی سازش
ایسی ہی افسوسناک داستان غرب اردن کی امل عتیق نامی خاتون کی ہے۔ اس نے بیت المقدس میں اسرائیلی قونصل خانے میں ویزے کے حصول کے لیے درخواست دی۔ جب ویزے کے حصول کے لیے اسے قونصل خانے میں مقررہ تاریخ کو طلب کیا گیا اور کہا گیا کہ وہ اپنے تمام کوائف قونصل خانے میں پیش کرے مگر صہیونی فوج کی طرف سے اسے کہا گیا کہ وہ بیت المقدس میں اسی صورت میں جاسکتی جب تک کہ وہ سیکیورٹی کمپنی کے ذریعے معاہدہ نہیں کرتی۔
امل عتیق کا کہنا ہے کہ اس نے سیکیورٹی کمپنی سے رابطہ کیا تو کمپنی کی طرف سے بتایا گیا کہ اسے 12 ہزار شیکل کی رقم ادا کرنا ہوگی۔ وہ بیت المقدس اور غرب اردن کے درمیان الرام چیک پوسٹ پر پونا گھنٹہ انتظار کرتی رہی مگراسے بیت المقدس میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
امل عتیق کاکہنا ہے کہ صہیونی ریاست کی طرف سے یہ شرمناک شرائط ہیں۔ وہ بھلا اتنی مختصر کی مسافت کے لیے 3000 ڈالر کی رقم کیوں کر ادا کریں۔
شہریوں کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش
فلسطینی قانون دان محمد کم مجی نے کہا کہ بہ ظاہر اسرائیلی حکام کی طرف سے عائد کردہ شرائط سیکیورٹی کی آڑ میں ہیں مگر ان کے در پردہ شہریوں کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی حکام ایک طرف فلسطینی شہریوں کو بلیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیکیورٹی کےلیے خطرہ نہ بننے والے شہریوں کو بھی پریشان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس Â لیے کیا جاتا ہے کہ صہیونی فوج شہداء اور اسیران کے اہل خانہ کو سفر سے روکنے کی کوشش بھی ہے۔
فلسطینی سماجی کارکن نے کہا کہ صہیونی فوج اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے ذریعے فلسطینیوں کو ایک سے دوسری گذرگاہ میں آمد روفت اور سفر کی صعوبتوں میں تذلیل کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ قطعا غیر منطقی ہے کہ نام نہاد سیکیورٹی وجوہات کی آڑ میں فلسطینی شہریوں کی لوٹ مار کی جاتی ہے اوران کی جیبوں سے بھاری رقوم نکالی جاتی ہیں۔