غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین میں 30 مارچ 2018ء کو ’یوم الارض‘ کےموقع پر لاکھوں فلسطینیوں نے گھروں سے نکل کر واپسی کے اپنے دیرینہ اور مسلمہ حق کے حصول کے لیے ریلیاں نکالیں۔
دوسری جانب اسرائیلی ریاست نے حسب معمول پُرامن فلسطینی مظاہرین کے خلاف طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا جس کے نتیجے میں اب تک پینتیس فلسطینی شہید اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوچکے ہیں۔شاید اسرائیل کا خیال تھا کہ 30 مارچ اور اس کے بعد شروع ہونے والی فلسطینی تحریک حق واپسی چند روز کے اندر اندر سرد پڑجائے گی مگر اسرائیلی دشمن کے تمام اندازے الٹ ثابت ہوئے۔ فلسطینیوں کو احتجاج سے روکنے اور انہیں خوف زدہ کرنے کے لیے ان پر طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا گیا، خیال یہ تھا کہ فلسطینی شہری طاقت سے مرعوب ہو کر احتجاجی مظاہروں میں حصہ نہیں لیں گے، مگر دیکھتے ہی دیکھتے غزہ کی مشرقی سرحد پر ہزاروں فلسطینیوں نے پانچ مقامات پراحتجاجی کیمپ لگا دیئے۔
ان احتجاجی کیمپوں میں بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی آمد صیہونی فوج اور اس کے سیکیورٹی و انٹیلی جنس اداروں کے خلاف خلاف توقع ہے۔
صیہونی فوج نے احتجاجی ریلیوں میں تعداد کم کرنے کے لیے غزہ کی پٹی میں ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے والی بسوں پر بھی پابندیاں عائد کردیں۔ مگر ان پابندیوں کا بھی فلسطینی مظاہرین پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں پڑا ہے۔
غزہ میں بس سروس چلانے والی ایک کمپنی کے عہدیدار نے بتایا کہ اسے اسرائیلی حکام کی طرف سے ٹیلیفون پر دھمکیاں دی گئیں کہ اگر انہوں نے غزہ میں مظاہرین کو بس سروسز فراہم کیں تو ان کے خاندان کی خیر نہیں ہوگی۔
صیہونی فوجی عہدیدار نے دھمکی دی کہ غزہ کی مشرقی سرحد پر مظاہرین کو لانے والی بسوں پر بمباری کی جا سکتی ہے۔ نیز غرب اردن سے گاڑیوں کے ٹائر اور اسپیئر پارٹس کی غزہ منتقلی بھی روکی جاسکتی ہے۔
پابندیوں کا نفاذ
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ میں بس سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں کے مالکان کو دھمکیاں دینا بحران کے گھمبیر ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ لگتا ہے کہ اسرائیل فلسطینی تحریک حق واپسی سے خوف زدہ ہے اور اسے ناکام بنانے کے لیے طاقت کے استعمال کے ساتھ ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو بھی بلیک میل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
عبرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی حکومت کے رابطہ کار ’یوآو مرڈخائی‘ نے حال ہی میں کہا تھا کہ وہ غزہ کی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے مالکان پر نئی پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں کیونکہ یہ کمپنیاں فلسطینی مظاہرین کو غزہ کی سرحد پر ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا کرتی ہیں۔
اسرائیلی امور کے تجزیہ نگار ایمن الرفاتی نے کہا کہ فلسطینی بس مالکان کو دھمکانا اسرائیل کی پرانی پالیسی ہے اور اس کا مقصد فلسطینی معاشرے کو تقسیم کرنا ہے۔ اسرائیلی ریاست یہ چاہتی ہے کہ فلسطینی گروپوں میں بٹ جائیں۔ معاشی مقاصد کے تحت کام کرنے والی کمپنیوں اور اداروں کو قومی سطح کی سرگرمیوں میں پیش پیش فلسطینیوں سے دور رکھا جائے اور ان کے دلوں میں یہ بات ڈالی جائے کہ اگر وہ مظاہروں کے لیے کال کرنے والے گروپوں کی مدد کریں گی تو اس کے نتیجے میں اسرائیل ان پر پابندیاں عائد کرسکتا ہے۔
تجزیہ نگار نایل عبدالھادی نے کہا کہ دھکیوں کا مقصد غزہ کے عوام کو خوف زدہ کرنا اور انہیں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے خلاف نفرت دلانا ہے تاکہ غزہ میں بدتر اقتصادی حالات پیدا کرکے عوام کو حماس کے خلاف بغاوت پر اکسایا جاسکے۔
مظاہرین کی تعداد کم کرنے کی کوشش
نائل عبدالھادی کا کہنا ہے کہ دھمکیاں اور پابندیاں اسرائیلی سیکیورٹی اداروں کا اپنے مذموم مقاصد کے حصول کا ایک کار گر حربہ ہے۔ اس کا مقصد غزہ کی پٹی میں عوام کو حماس کے خلاف اکسانا اور حق واپسی کے لیے ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شرکاء کی تعداد کم سے کم کرنا ہے۔
ایمن الرفاتی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسرائیل مظاہرین کے ھجوم کو کم کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے بس کمپنیوں کے مالکان کو ڈرا دھمکا کر اور انہیں بلیک میل کرکے حق واپسی ریلیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی بس کمپنیوں کو سزائیں دینا اس کا بات بھی اشارہ ہے کہ اسرائیل طاقت کے ذریعے فلسطینیوں کو حق واپسی کی تحریک سے پیچھے ہٹانے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ فلسطینی بس کمپنیاں صیہونی فوج کے لیے ایک فوبیا اور سر درد بنی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صیہونی دشمن ٹرانسپورٹ کمپنیوں کا تعاقب کرنے کی مذموم مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔