ایک استعماری طاقت کے طور پر صیہونی ریاست نے فلسطین میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے مذہب کا سہارا لیا اور ’توارات‘ کی من گھڑت روایات کو اپنے حق میں بہ طور دلیل پیش کیا۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ فلسطین اصلا یہودیوں کا قومی ملک ہے اور فلسطینی یہاں نو آباد کار ہیں۔ اس طرح فلسطینیوں کے وجود کو ختم یا کم کرنے کے لیے طاقت کے استعمال اور جنگوں کے ساتھ ساتھ سیاسی تصفیوں کا بھی سہارا لیا جاتا رہا۔ دوسرے الفاظ میں صیہونی ریاست اور اس کے حواریوں نے فلسطینی قوم کے خلاف ’گاجر اور چھڑی‘ کی پالیسی اپنائی۔
فلسطینی قوم کے خلاف سازش ریل گاڑی کی بوگیوں کی مانند ہے جو ایک دوسرے سے الگ بھی ہیں اور جڑی ہوئی بھی ہیں۔ اصل کشمکش کا آغاز 1897ء کی بازل کانفرنس سے ہوا۔ اس کے بعد ’اعلان بالفور‘ (1917) اس کی اگلی کڑی تھی جس میں ارض فلسطین میں یہودیوں کے وطن کا جھوٹ گھڑا گیا۔ پھر 1929ء کا انقلاب براق، 1936ء کی طویل ترین ہڑتال جس کے بعد ’نکبہ‘ کا قتل عام، پھر انتفاضہ 1987ء، انتفاضہ الاقصیٰ 2000ء یہ تمام وہ اہم مراحل ہیں جن میں فلسطینی قوم نے اپنے وجود کی بقاء کی جنگ لڑی۔ فلسطینی آج بھی دشمن کے سامنے اپنے آئینی حقوق کی جدو جہد پورے توانا عزم کے ساتھ کر رہے ہیں۔ دشمن نے فلسطینیوں کو تقسیم کرنے کے لیے اوسلو معاہدہ جیسے اقدامات کیے مگر ہر بار فلسطینی نے پہلے سے بڑھ کر یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔
زندہ قوم
فلسطین میں صیہونی ریاست کے قیام کی بنیاد برطانوی سامراج نے ڈالی اور اس خار دار پودے کو پروان امریکیوں نے چڑھایا۔ سنہ 1948ء سے 1993ء تک مجرمانہ غفلت کی مرتکب عالمی برادری نے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے کوئی موثر قدم نہ اٹھایا بلکہ فلسطین میں صیہونی آباد کاری اور فلسطینیوں پر مظالم کے تسلسل میں امریکا اور برطانیہ صیہونی ریاست کے دست و بازو بنے رہے۔
فلسطینیوں کو جبرا ھجرت پر مجبور کیا جاتا، ان کا قتل عام کیا جاتا اور املاک غصب کر کے صیہونیوں کو دی جاتی رہیں مگر عالمی سامراجی طاقتوں نے فلسطینیوں پر مظالم بند کرانے کے بجائے انہیں ’اوسلو‘ معاہدے کا لالی پاپ دیا جس کی اگلی اور انتہائی بھیانک شکل ’2018ء کی صدی کی ڈیل‘ کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار اور پناہ گزینوں کےامور کے ماہر رمزی رباح کا کہنا ہے کہ فلسطینی قوم کی مشکلات شروع سے ہی چلی آ رہی ہیں۔ عالمی طاقتوں نے فلسطینی قوم کے حقیقی مطالبات کو ہمیشہ نظرانداز کیا اور برائے نام اور جعلی امن معاہدوں کے ذریعے فلسطینیوں کو چنگل میں پھنسانے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ تاہم فلسطینی قوم نے ہمیشہ بیداری اور زندہ ہونے کا ثبوت دیا اور اپنے حقوق پر کلہاڑا چلانے والوں کو یہ پیغام دیا کہ فلسطینی قوم بکنے اور جھکنے والی ہرگز نہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کو قومی یکجہتی کی جتنی آج ضرورت ہے، ماضی میں کبھی نا تھی۔ آج فلسطینی قوم کو ڈونلڈ ٹرمپ کی’صدی کی ڈیل‘ کی سازش کا سامنا ہے۔
تجزیہ نگار محمد مصلح نے کہا کہ صیہونی ریاست کے منصوبوں کے پس پردہ توراتی نظریہ کار فرما ہے جس کا اصل ہدف ارض فلسطین سے فلسطینی قوم کے وجود ہی کو ختم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم کا اپنی شناخت پر قائم رہنا ہی صیہونی ریاست کے مذموم عزائم کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ صیہونی ریاست کے لیڈر فلسطینیوں کے حقوق کیا ان کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کرتے جب کہ فلسطینی قوم اپنے زور بازو سے آج تک نہ صرف خود کو زندہ رکھے ہوئے ہے بلکہ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔
نوآبادیاتی نظام کی ترویج
فلسطین میں صیہونی ریاست کے 70 سالہ قیام کے عرصے پر نظر ڈالیں تو قدم قدم پر ہمیں فلسطینی قوم کے قتل عام کے ثبوت ملتے ہیں۔ ستر برس سے فلسطین میں صیہونی آباد کاری کا کینسر پھیل رہا ہے۔
رمزی رباح کا کہنا ہے کہ سنہ1948ء کی نکبہ میں ایک 12 لاکھ فلسطینیوں کو جلاوطن کرکے ایک لاکھ صیہونیوں کو آباد کیا گیا۔ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی اور ھجرت اس لیے کی جاتی رہی تاکہ فلسطینی آبادی میں صیہونیوں کے مقابلے میں اقلیت میں بدل جائیں۔ اگر فلسطینی آبادی میں اکثریت میں رہتے ہیں تو اس طرح صیہونی ریاست کو اپنے عزائم آگے بڑھانے مشکل ہوجائیں گے۔
ہجرت کے بعد سب سے زیادہ فلسطینی غزہ کی پٹی میں آباد ہوئے جہاں فلسطینی پناہ گزینوں کی آبادی کا تناسب کل آبادی کا 70 فی صد ہے جب کہ غرب اردن میں 35فلسطینی پناہ گزین ہیں۔
فلسطین کے عرب شہروں میں صیہونی ریاست نے نوآبادیاتی نظام کے مطابق پالیسی اپنائی۔ فلسطینی ارضی غصب کرکے صیہونیوں کو دی گئی۔ کالونیاں بنائی گئیں۔ فلسطینی قصبے تقسیم کئے گئے اور طاقت کے ذریعے فلسطینیوں کو ان کے وطن اصلی سے نکل جانے پر مجبور کیا جاتا رہا۔
صہیونی ریاست نے آرمی ایکٹ 1797 جاری کیا جس کے تحت ’سیکٹر C‘ میں فلسطینیوں کے مکان تعمیر کرنے پر پابندی عائد کردی۔