آئے روز اخبارات میں فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام عقوبت خانوں میں ڈالے گئے سیاسی قیدیوں پر وحشیانہ اور سفاکانہ تشدد کی خبریں آتی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بار ہا فلسطینی اتھارٹی کے زندانوں میں قیدیوں سے غیرانسانی سلوک پر چیخ چیخ کر عالمی برادری کو متوجہ کرچکی ہیں مگر ذرائع ابلاغ کے واویلے اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی چیخ پکار سے فلسطینی اتھارٹی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر اریحا میں فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت نام نہاد انٹیلی جنس گماشتوں نے جیل کی آڑ میں ایک عقوبت خانہ اور ٹارچر سیل بنا رکھا ہے جہاں پر آئے روز سیاسی کارکنوں کو اذیتیں دی جاتی ہیں اور تشدد کے لیے ایسے رونگٹے کھڑے کردینے والے مکروہ حربے استعمال کیے جاتے ہیں جنہیں سن کر روح بھی کانپ اٹھتی ہے۔
تشدد کا ایسا کون سا حربہ ہے جو اریحا کے عقوبت خانے میں نہتےسیاسی کارکنوں کے خلاف نہیں آزمایا جاتا۔ تشدد کے ایسے حربے بھی استعمال کیے جاتے ہیں جو اب تک صہیونی عقوبت خانوں میں بھی استعمال نہیں کیے گئے۔ یہاں پرلائے گئے سیاسی کارکنوں کے ہاتھوں اور پاؤں میں بھاری زنجیریں ڈالی جاتی ہیں۔ الٹا لٹکا کر کوڑوں سے اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ قیدیوں کی چیخیں آسمانوں کو جاتی ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اریحا جیل میں تشدد کے عملی مظاہر سے لگتا ہے کہ یہ کسی خوفناک فلم کے مناظر ہیں مگر یہاں فلم نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں قیدیوں پرظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔
اریحا جیل میں تشدد کا نشانہ بنائے جانے والے نہ تو جنگی مجرم ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ فلسطین میں کسی سنگین جرم میں پکڑے جاتے ہیں۔ ان کا قصور زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صہیونی ریاست کے مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوتے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں کے Â مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر سیاسی قیدیوں کے حق میں دھرنے دیتے ہیں۔ مگر عباس ملیشیا کے درندہ صفت اہلکار بے گناہ سیاسی کارکنوں سے بھی سنگین مجرموں جیسا سلوک کرتے اور انہیں پر ہولناک تشدد کے وحشیانہ حربے استعمال کرکے یہ ثابت کرتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کی ناک تلے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے بار بار توجہ دلانے کے باوجود اریحا اور دوسری فلسطینی جیلوں میں قیدیوں پر جاری تشدد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مجرمانہ تشدد کا سلسلہ فلسطینی اتھارٹی کی اجازت سے ہو رہا ہے۔ یوں خود فلسطینی اتھارٹی اور فلسطینی حکومت کے مدارالمہام سیاسی قیدیوں پر ہولناک تشدد کے سنگین جرم میں نہ صرف شریک ہیں بلکہ Â اذیتیں دینے کی سرپرستی کرتے ہیں۔
اذیتوں کا لا متناہی سلسلہ
اریحا جیل میں ہولناک تشدد کا سامنا کرنے والے ایک فلسطینی اسیر نے بتایا کہ جیل میں وحشیانہ تشدد اور اذیتوں کا سلسلہ لا متناہی ہے۔ کسی بھی فلسطینی سیاسی کارکن کو گرفتار کرنے کے بعد جب اس جیل میں لایا جاتا ہے تو اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس کے ہاتھ اور پاؤں باندھے جاتے ہیں اور ساتھ ہی پانچ سے دس پولیس اہلکار اسے مارنا شروع کردیتے ہیں۔
فلسطینی شہری نے بتایا کہ تنگ تاریک ، بدبودار اور حشرات الارض سے بھری کال کوٹھریوں میں ڈالنا فلسطینی سیکیورٹی اداروں کا قیدیوں کو اذیتیں دینے کا Â پرانا حربہ ہے اور یہ اب بھی جاری ہے۔ ایسا کوئی سیاسی قیدی نہیں ہوتا جسے اس طرح کے بھوت گھرمیں رہنے کا تجربہ نہ ہو۔
ہاتھ پشت پر باندھنے اور آنکھوں پر پٹی باندھنے کے بعد قیدیوں کے دونوں پاؤں کو غیرمعمولی حد تک پھیلا کر کئی کئی گھنٹے کھڑے رکھا جاتا ہے۔ بعض اوقات قیدیوں کو ہاتھوں کے ساتھ رسیاں باندھ کر انہیں لٹکا دیاجاتا ہے۔ اس دوران قیدیوں کو کوڑوں سے مارا پیٹا جاتا ہے اور انہیں گالیاں دی جاتی ہیں۔
اریحا جیل میں تشدد کا سامنا کرنے والے سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ جیل کے اندر جگہ جگہ خفیہ کیمرے نصب ہوتے ہیں۔ اگر کوئی قیدی خود کو دی گئی سزا میں کوئی تبدیلی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو جیلر اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اسے ہولناک تشدد کے بعد دوبارہ پہلے والی سزا دی جاتی ہے اور یہ سلسلہ لامتناہی انداز میں جاری رہتا ہے۔
تشدد کے ظالمانہ حربے
اریحا جیل میں قید و بند اور مظالم جھیلنے والے کارکنوں میں ابوالمجد نامی کارکن بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی کتھا یوں بیان کی کہ مجھے چھ بار حراست میں لیا گیا۔ کئی بار گرفتاریوں کا ذایقہ چکھتے ہوئے جو تشدد اریحا جیل میں کیا گیا وہ اس سے قبل کبھی کسی اور جگہ نہیں کیا گیا۔
ابو المجد نے بتایا کہ اریحا جیل میں قیدیوں کو اذیتیں دینے کے کئی ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ تشدد کے ان حربوں کے اپنے نام ہیں۔ ایک حربہ ’الفلقہ‘ کہلاتا ہے۔ تشدد کے اس حربے کے دوران قیدی کو فرش پر کمر کے بل لٹایا جاتا ہے اور اس کے پاؤں کی جانب ایک کرسی رکھی جاتی ہے۔ اس کے پاؤں اس کرسی پر رکھے جاتے ہیں۔ ایک تفتیش کار قیدی کے سر اور ایک پاؤں کی جانب ہوتا ہے جب کہ تیسرا درمیان میں کھڑ رہتا ہے۔ قیدی کے دونوں پاؤں پلاسٹک کی مضبوط رسی سے ٹخنوں سے باندھ دیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد سر کی طرف کھڑا تفتیش کار قیدی کے چہرے پر زور دار طمانچے مارتا ہے اور پاؤں کی طرف کھڑا اہلکار قیدی کے پاؤں کی ہتھیوں پر لاٹھی سے شدید ضربیں لگاتا ہے۔ اس دوران درمیان میں کھڑا تفتیش کار بھی وقفے وقفے سے لاتوں یا لاٹھی سے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی گھنٹے تک جاری رہتا ہے اور عموما قیدی وحشیانہ تشدد سے بے ہوش جاتے ہیں۔ بعض اوقات تشدد کا یہ حربہ ایک دن میں کئی کئی بار بھی آزمایا جاتا ہے۔
ابوالمجد نے بتایا کہ تشدد کا ایک دوسرا حربہ خالی دیوار کے ساتھ قیدی کو کھڑا کرکے اسے اس پر چڑھنے کا حکم دینا ہے۔ قیدی کے ہاتھ اس کی پشت پر باندھ کر اس کی آنکھوں پر پٹی چڑھا دی جاتی ہے اور اسے کسی دیوار کے ساتھ کھڑا کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے کہا جاتا ہے کہ وہ سیڑھیاں چڑھے مگر وہ کوئی سیڑھی نہیں ہوتی۔ اس کے پیچھے صرف دیوار ہوتی ہے۔ جب وہ دیوار پرنہیں چڑھ پاتا تو اسے کوڑوں مارا پیٹا جاتا ہے۔
تشدد کے لیے لوہے کی لاٹھی بھی استعمال کی جاتی ہے۔ بعض اوقات قیدیوں کے دونوں کندھوں کے نیچے بازووں سے لاٹھی گذار کر قیدی کو باندھ دیا جاتا ہے اور اسے آلتی پالتی مار کر بیٹھنے کو کہا جاتا ہے۔
ایک دوسرے سیاسی کارکن نے بتایا کہ اریحا جیل میں تشدد کا ایک حربہ قیدیوں کو ایک انتہائی تنگ کمرے میں ڈال کر اس میں ایئرکنڈیشن چلا کر تشدد کیا جاتا ہے۔ قیدیوں کو مسلسل جگائے رکھا جاتا ہے۔ سردیوں میں قیدیوں پر ٹھندہ پانی پھینکا جاتا ہے۔ بعض قید خانوں میں نیچے بچھانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہوتی اور قیدی رات دن شدید سردی میں ٹھٹھڑ کر گذارتے ہیں۔
قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے دیگر حربوں میں ایک حربہ بجلی کے جھٹکے لگانے کا ہوتا ہے۔ اریحا جیل میں ڈالے گئے فلسطینی کارکنوں میں سے بیشتر نےبجلی کے جھٹکے لگانے کے حربے کا سامنا کرنے کی شکایت کی۔