رام اللہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) حال ہی میں فلسطین میں اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کے تین ایسے المناک واقعات پیش آئے جنہوں نے جہاں ایک طرف غیرمعمولی عالمی توجہ حاصل کی اور دوسری طرف دنیا کے سامنے صیہونی ریاست کی رعونت اور مکروہ چہرہ ایک بار پھربے نقاب ہوگیا۔
یہ تینوں واقعات فلسطینی قوم کی صیہونی ریاست کےخلاف فلسطینی قوم کی زندہ علامت کے طور پرسامنے آئے ہیں۔مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل سے فلسطینی بچے فوزی الجنیدی کی مجرمانہ گرفتاری، غزہ کی پٹی میں دونوں ٹانگوں سے معذور فلسطینی شہری ابراہیم ابو ثریا کی شہادت اور غرب اردن کی بہادر بیٹی عہد تمینی کی گرفتاری جیسے واقعات نے صیہونی ریاست کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا۔
ان تینوں فلسطینیوں کی تصاویر عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا غیرمعمولی مرکز بنیں اور زندہ اور آزاد ضمیر انسانیت نے ان ناموں کو فلسطینی قوم کی تحریک آزادی اور مزاحمت کی زندہ علامت کے طور پر پیش کیا۔
جہاں ان تینوں فلسطینیوں کی تصاویر کو بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی وہیں ان کے ساتھ ساتھ صیہونی دشمن کے لیے امریکا کی کھلم کھلا طرف داری کو بھی کڑی تنقید اور مذمت کا نشانہ بنایا گیا۔
جنگل کا قانون
فلسطینی تحریک مزاحمت کا ’آئیکون‘ بن جانے والی تصاویر میں فلسطینی بچے فوزی الجنیدی کا واقعہ غیرمعمولی توجہ کا مرکز بنا، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو فلسطینیوں اور مسلمانوں سے چھین کرغاصب صیہونیوں کا دارالحکومت قرار دیا تو اس کے خلاف فلسطین میں بڑے پیمانے پرمظاہرے پھوٹ پڑے۔ ان مظاہروں میں بچے، جواں، بوڑھے،مرد و زن سب برابر کے شریک تھے۔ ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران اسرائیلی فوج نے اپنی ’بزدلانہ بہادری‘ دکھاتے ہوئے فوزی الجنیدی کو حراست میں لیا۔ ایک معصوم اور نہتے فلسطینی بچے کے آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر اس کے ہاتھ پشت پرباندھ دیے گئے تھے اور اس کے ارد گرد 23 مسلح اسرائیلی گماشتوں کا ھجوم تھا۔ یہ تصویر زندہ دلان عالم کے لیے ایک واضح پیغام اورصیہونی ریاست کی وحشت، درندگی اور رعونت کا ثبوت تھا۔Â دو درجن فوجی ایک نہتے فلسطینی بچے کو گرفتار کرکے حقیقی معنوں میں اپنی شرمناک شکست کا بہ زبان حال خود اعتراف کررہے تھے۔
دوسری تصویر ابراہیم ابو ثریا کی تھی جس نے پوری دنیا کوہلا کر رکھ دیا۔ ابو ثریا کو اسرائیلی فوج نے آج سے نو سال قبل بمباری کرکے غزہ کی پٹی میں شدید زخمی کردیا تھا۔ بمباری میں اس کی دونوں ٹانگیں کٹ گئی تھیں، مگر معذوری کے علی الرغم ابو ثریا صیہونی ریاست کے خلاف غزہ کی پٹی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں پیش پیش تھا۔
ڈیڑھ ہفتہ قبل جمعہ کے روز جب فلسطینی عوام نےڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان القدس کے خلاف احتجاج شروع کیا تو غزہ میں نکالی گئی ایک ریلی کے دوران ابو ثریا بھی شریک ہوا۔ وہ وہیل چیئر پر مظاہروں میں شریک ہوتا اور صیہونی دشمن کو یہ پیغام دیتا تھا کہ معذوری فلسطینی قوم کو آزادی کے مطالبات اور حقوق سے محروم نہیں کرسکتی۔
چنانچہ صیہونی فوج نے ایک نہتے اور آدھے جسم سے محروم فلسطینی کو جب وہ وہیل چیئر پر تھا قریب سے اس کے چہرے پر گولیاں مار کر شہید کردیا۔
ابو ثریا کی شہادت نے صیہونی ریاست کی دہشت گردی، وحشت، بربریت اور درندگی کو ایک بار پھردنیا کے سامنے بے نقاب کردیا۔ ثابت ہوگیا کہ صیہونی ریاست فلسطینیوں کی نسل کشی اور نسل پرستی کی بدترین اور وحشیانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اسرائیلی فوجی تمام ترانسانیت اور اخلاقیات سےعاری درندے ہیں جو کسی معذور احتجاجی کو بھی اس بزدلانہ طریقے سے شہید کرتے ہیں۔
تیسری تصویر جس نے صیہونی ریاست کا مکروہ چہر دنیا کے سامنے واضح کیا وہ ایک سولہ سالہ فلسطینی لڑکی عہد تمیمی کی گرفتاری اور اس سے قبل اس کی صیہونی فوجیوں کو تھپڑ مارنے کی ہے۔
صیہونی فوجیوں نے عہد کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ اس نے اپنے گھر کے باہر کھڑے صیہونی فوجیوں کو وہاں سے چلے جانے کا کہا مگر صیہونی درندے ادھر ہی کھڑے رہے۔ اس پرمشتعل عہد تمیمی نےدو صیہونی فوجیوں کو جرات اور بہادری کی مثال قائم کرتے ہوئے تھپڑ رسید کیے۔ اس کے بعد قابض فوج نے رات کی تاریکی میں عہد کو اس کے گھر سے اٹھالیا۔ اس کے والد،والدہ اور ایک دوسری عزیزہ کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔
وحشت وبربریت کی زندہ مثال
سوشل میڈیا پر ان تینوں تصاویر کو بھرپور پذیرائی ملی اور لاکھوں افراد نے صیہونی ریاست اور اس کی بزدل فوج کی وحشت کے خوب لتے لیے۔ عالمی سطح پر بدنامی کو دیکھ کر صیہونی ریاست نے یہدعویٰ کرڈالا کہ یہ تینوں واقعات غیرحقیقی اور تصاویر جعلی ہیں۔ مگر حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی۔
ابراہیم ابو ثریا کی شہادت تئیس فوجیوں کاÂ نہتے فلسطینی فوزی الجنیدی کی گرفتاری اور ایک معصوم بچی عہد تمیمی کی گرفتاری اور اس کا ٹرائل فلسطینی تحریک مزاحمت کی زندہ علامت اور صیہونی ریاست کی وحشت و بربریت کے کھلے ثبوت بن کرسامنے آئے۔
دوسری طرف صیہونی ریاست کے ذرائع ابلاغ نے بھی ان تینوں واقعات پر اپنے مخصوص مجرمانہ پروپیگنڈے کا مظاہرہ کیا۔
صیہونیوں کی مجرمانہ ذہیت کا اندازہ ’یروشلم پوسٹ‘ میں شائعÂ ’بن کاسپٹ‘ نامی ایک صیہونی درندے کے مضمون سے ہوتا ہے، جس نے مطالبہ کیا کہ عہد تمیمی اور اس کے خاندان کی تمام خواتین کی اندھیرے کمروں میں اجتماعی آبرو ریزی کی جائے۔
صیہونی مصنف نے عہد کے ہاتھوں دو فوجیوں کو تھپڑ لگنے کے واقعے کو پورے اسرائیل کی توہین قرار دیا۔ دیگر صیہونی مضمون نگاروں نے بھی کاسپٹ ہی کی طرز کا لب ولہجہ اختیار کیا۔
بائیں بازو کے کالم نگار ’گیدعون‘ نے لکھا کہ معذور ابو ثریا کے قتل کے واقعے کو اسرائیل میں کوئی پذیرائی نہیں ملی۔
تاہم گیدعون نے صیہونی فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا اور لکھا کہ ایک معذور فلسطینی کو قتل کرنے کے واقعے سے اسرائیلی فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس طرح کے واقعے سے اسرائیل میں کسی کو کوئی صدمہ، کوئی رحم، کوئی عار اور معذرت کا احساس نہیں اور نہ ہی کوئی ایسے واقعات پر دکھ محسوس کرتا ہے۔
تصاویر کی طاقت
فلسطینی تجزیہ نگار احمد البیتاوی کا کہنا ہے کہ معذور ابراہیم البیتاوی نے کئی حوالوں سے ہمارے سامنے ایک حسین اور قابل تحسین عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ معذور ہونے کے باوجود ابو ثریا نے ثابت کیا کہ وہ بھیک مانگ کر زندگی نہیں گذارے گا بلکہ معذوری کے باوجود اس نے محنت کا سلسلہ جاری رکھا۔ تمام تر مشکلات کے باوجود اس نے خود کو فٹ رکھنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی جسمانی کمزوری اور معذوری کی وجہ سے ہرایک اس کے ساتھ محبت اور ہمدردی کرتا تھا۔
فلسطینی صحافیہ لمیٰ خاطر کا کہنا ہے کہ تینوں واقعات کی تصاویر نے فلسطینی مزاحمت میں ایک نئی جان ڈال دی۔ ان تصاویر نے غیرمعمولی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ تصاویر نے صیہونی ریاست کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا۔