حماس رہنما نے ان خیالات کا اظہار ایک تفصیلی انٹرویو میں کیا۔ مسلسل 22 ماہ اسرائیلی جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد الشیخ حسن یوسف کی رہائی کے بعد یہ پہلا تفصیلی انٹرویو ہے۔ اپنے اس انٹرویو میں انہوں نے حماس کی قومی مفاہمت سے متعلق پالیسی، اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے ممکنہ معاہدے اور دیگر اہم موضوعات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
الشیخ حسن یوسف نے کہا کہ اسرائیل اگر غزہ کی پٹی میں جنگی قیدی بنائے گئے اپنے فوجیوں کی رہائی چاہتا ہے تو اسے ’معاہدہ احرار‘ کے تحت رہائی پانے کے بعد دوبارہ گرفتار کیے گئے 54 فلسطینیوں کو رہا کرنا ہوگا۔
الشیخ حسن یوسف کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا احوال پیش ہے۔
سوال: آپ کو صہیونی فوج نے 22 ماہ تک پابند سلاسل رکھا۔ کیا اس دوران صہیونیوں نے جیلوں میں اسیر رہنماؤں سے بھی قیدیوں کے تبادلے کی ممکنہ ڈیل پر کوئی بات چیت کی؟
حسن یوسف: اگر اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اس کے جنگی قیدی بنائے گئے فوجیوں کی رہائی پر کوئی بات چیت شروع کی جائے تو اس سے سب سے پہلے ان 54 فلسطینیوں کو رہا کرنا ہوگا جنہیں اس نے سابقہ معاہدے کے دوران رہا کیا مگر دوبارہ گرفتار کرلیا تھا، اوران میں سے بیشتر کی سابقہ سزائیں بھی بحال کردی گئی ہیں۔
اگر اسرائیل ہماری شرائط پرعمل درآمد کرتے ہوئے پہلے ان چون فلسطینیوں کو رہا کرتا ہے تواس کے بعد بلا تاخیر اسرائیل کے ساتھ اس کے جنگی قیدیوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کیا جائے گا۔
دوران حراست اسرائیلی وزیر دفاع کے ایک نمائندے نے بھی ملاقات کی۔ ہم نے اس وقت اسرائیلی حکام کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بارے میں غزہ میں متعلقہ افراد کو بتایا۔
حماس کا اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے موقف واضح ہے۔ وہ یہ کہ اسرائیل کو 54 فلسطینی قیدیوں کو کسی بھی نئے معاہدے کے لیے بات چیت سے قبل رہا کرنا ہوگا۔ اسرائیل نے سابقہ معاہدے کے تحت رہا کیے گئے 54 فلسطینیوں کو گرفتار کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ جب تک اسرائیل ان فلسطینی اسیران کو رہا نہیں کرتا اس وقت تک اسے غزہ کی پٹی میں جنگی قیدی بنائے گئے اسیران کے بارے میں کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کی جائیں گی۔
سوال: جب آپ کو جیل سے رہا کیا گیا تو آپ نے صہیونیوں کو یہ کہا تھا کہ وہ معاہدہ احرار میں رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار فلسطینیوں کو رہا کریں تو ہم 24 سے 48 گھنٹوں میں تمہارے لاپتا فوجیوں کے بارے میں معلومات فراہم کریں گے؟۔ اسرائیلی حکام نے موقع سے کس حد تک فائدہ اٹھایا بالخصوص جب ریڈ کراس کے چیئرمین نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو سے ملاقات کے بعد غزہ میں حماس کے رہ نما یحیٰ السنوار سے ملاقات کی؟۔
حسن یوسف: اس طرح کی باتیں بلا شبہ صہیونیوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ بالخصوص یرغمالی فوجیوں کے اہل خانہ اس سے مثبت پیش رفت سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں ریڈ کراس کے مندوب کی یحیٰ السنوار سے ملاقات اہم پیش رفت ہے۔ اس ضمن میں اسیر رہنما حسن سلامہ کا پیغام بھی اہم ہے۔ انہوں نے جیل میں قید طویل المدتی اسیران، طویل قید کا سامنا کرنے والے اور دوسرے اسیران سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ ہم سب معاہدہ احرار کے تحت رہا ہوئے شہریوں کی گرفتاری کے بعد رہائی چاہتے ہیں۔ اس کے بعد یہ توقع رکھتے ہیں کہ جلد ہی فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان کوئی نئی ڈیل بھی طے پائے گی۔
سوال: آپ کے خیال میں کیا اسرائیل قیدیوں کے تبادلے کے لیے کسی نئی ڈیل میں ٹال مٹول سے کام نہیں لے رہا۔ اس ٹال مٹول کے نتیجے میں فلسطینی مزاحمتی قوتوں اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بھی بڑھ رہی ہے۔ آپ کے خیال میں آخری فتح کس کی ہوگی؟
حسن یوسف: فتح ونصرت صرف فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی ہوگی۔ اسرائیل کو فلسطینی مزاحمت کاروں کی شرائط تسلیم کرنا ہوں گی۔ اسرائیل کو قیدیوں کے تبادلے کے لیے قیمت چکانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اسرائیل کا آخر کار فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے آگے جھکنا ہوگا۔
ماضی میں بھی اسرائیل قیدیوں کے تبادلے کے لیے ہونے والی کوششوں میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ صہیونی ریاست نے سابقہ معاہدہ احرار کے دوران بھی بیت المقدس اور سنہ 1948ء کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے اسیران کے معاملے میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسی طرح فلسطینی اسیر قیادت اور ناموں کی فہرست پربھی بار بار اعتراضات کیے گئے مگر بالآخر اسے اپنی ہٹ دھرمی ایک طرف رکھتے ہوئے فلسطینی مزاحمتی طاقتوں کے مطالبات کے سامنے جھکنا پڑا تھا۔
جیسا کے Â القسام بریگیڈ کے رہنما ابو عبیدہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی قوتیں صہیونی دشمن کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کرتی رہیں گی یہاں تک کہ دشمن کی جیلوں سے آخری فلسطینی بھی رہا ہوجائے گا۔
سوال: فلسطینیون کے درمیان ناچاقی کو ایک عشرہ بیت گیا ہے۔ کیا حسن یوسف حماس اور جماعت کے پارلیمانی بلاک کی قیادت کے ساتھ مفاہمت کے لیے کوئی موثر قدم اٹھانے کے لیے کام کررہے ہیں؟۔
حسن یوسف: فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت حماس کی تزویراتی حکمت عملی ہے۔ ہم مفاہمت کے لیے حتی المقدور کوششیں کررہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی نے مفاہمت کے لیے غزہ کی پٹی کی انتظامی کمیٹی کی تحلیل کا مطالبہ کیا۔ حماس اس کمیٹی کو کسی بھی وقت تحلیل کے لیے تیار ہے مگر غزہ کی انتظامی کمیٹی کو تحلیل کرنے سے قبل فلسطینی قومی حکومت کو غزہ کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔ ان میں وہ ملازمین جنہوں نے صہیونی ریاست کی کئی جنگیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ وہ بھی روٹی ، پانی اور دوائی کے حق دار ہیں۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے بمباری کے تسلسل میں بھی حماس نے ان کے معاشی حقوق کا خیال رکھا ہے۔
غزہ کے سرکاری ملازمین کے بنیادی حقوق سے تجاوز کرنے اور ان کی قربانیوں کو نظرانداز کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میرا خیال ہے کہ فلسطینی قوتوں کے درمیان مفاہمت کا عمل ایک پیکج کی شکل میں حل ہونا چاہیے۔ اس کے لیے غزہ کے ساحل پر ہونے والا معاہدہ، دوحہ اور قاہرہ میں ہونے والی مفاہمتی کوششوں کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔
سوال: مفاہمت کا ایک حل انتخابات بتائے جاتے ہیں۔ حماس اور تحریک فتح کی قیادت نے بھی یہ تجویز پیش کی ہے مگر اس میں رکاوٹ کون ہے؟۔
حسن یوسف: میرے خیال میں فلسطین میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات مفاہمتی پیکج کا حصہ ہیں۔ انتخابات عام ہونے چاہییں اور ان میں تمام فلسطینی علاقوں کو رائے دہی کا حق ملنا چاہیے۔ پارلیمانی، صدارتی ، بلدیاتی اور نیشنل کونسل کے انتخابات، تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کی Â جمہوری بنیادوں پر تشکیل نو حتیٰ کہ بلدیاتی انتخابات جن کا حماس اور اسلامی جہاد بائیکاٹ کرچکی ہیں پوری تیاری کے ساتھ منعقد ہونے چائیں۔
حماس انتخابات سے خوف زدہ نہیں بلکہ حماس کا دیرینہ مطالبہ یہی ہے کہ قوم کو اپنی قیادت کے چناؤ کا حق دیا جائے مگر انتخابات کے انعقاد کے لیے حالات کو سازگار بنانا بھی ضروری ہے۔
میں اپنی بات دہراؤں گا کہ مفاہمت ایک پیکج کی شکل میں ہونے چاہیے نہ کہ عبوری کارروائی کے تحت ہو۔ فلسطین میں انتخابات کے لیے فضاء سازگار بنانے کی ضرورت ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں سیاسی جماعتوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کی فضاء میں کسی قسم کے انتخابات ممکن نہیں۔ انتخابات ہرقسم کے اندرونی اور بیرونی دباؤ سے محفوظ، صاف اور شفاف ہونے چاہئیں۔ ایسے انتخابات کے لیے حماس آج بھی تیار ہے اور کل بھی تیار تھی۔
سوال: غرب اردن میں آپ شہری آزادیوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ بالخصوص فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے سائبر کرائم قانون کی منظوری، مجلس قانون ساز کو معطل کرنے اور سیاسی بنیادوں پر دسیوں کارکنوں کو حراست میں لینے کی پالیسی کے دوران بنیادی شہری آزادیوں کا گراف کہاں ہے؟۔
حسن یوسف: اسرائیلی عقوبت خانوں میں ہمیں محدود حد تک ذرائع ابلاغ تک رسائی رہتی ہے۔ صرف مقامی ریڈیو کی سہولت حاصل ہے۔ جیل میں اسیران فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے ذرائع ابلاغ کی آزادیوں پر قدغنوں کو نوٹ کرتے رہے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہوا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی سوشل میڈیا اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے پاؤں میں زنجیریں ڈال رہی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے یہ تمام اقدامات فلسطین کے قومی پروگرام کے لئے تباہ کن ہیں۔
آزادی اظہار رائے ہر فلسطینی کا بنیادی حق ہے اور نام نہاد قوانین کی آڑ میں اس حق کو سلب نہیں کیاجاسکتا۔ فلسطینی قوم پہلے ہی صہیونی ریاست کی ہمہ نوع پابندیوں کا شکار ہے۔ ایسے میں اگر فلسطینی اتھارٹی بھی اپنے شہریوں پر اظہار رائے پر پابندیاں عائد کرتی ہے تو اس سے فلسطینی قوم میں مایوسی میں اضافہ ہوگا۔ فلسطینی اتھارٹی کو آزادی اظہار رائے کو دبانے کے بجائے مخالف آراء کو برداشت کرنے کا مادہ پیدا کرنا چاہیے۔
سوال: فلسطین نیشنل کونسل قضیہ فلسطین کا تشخص ہے۔ اگر اس کے اجلاس کا انعقاد غرب اردن میں ہوتا ہے اور آپ کو اس میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے تو کیا آپ اس میں شرکت کریں گے؟ حماس کی کیا شرائط ہوں گی؟
حسن یوسف: فلسطینی مجلس قانون ساز کا رکن ہونے کے ناطے میں ویسے ہی نیشنل کونسل کا بھی رکن ہوں۔ اگر فلسطینیوں کو ایک سے دوسرے شہر میں نقل وحرکت کی آزادی ہوتی ہے تو اندرون فلسطین نیشنل کونسل کے اجلاس کے انعقاد میں کوئی حرج نہیں ورنہ ہمارا مطالبہ یہ ہوگا کہ نیشنل کونسل کا اجلاس فلسطین سے باہر منعقد کیا جائے۔
چونکہ ایک عام فلسطینی شہری سے لے کر فلسطینی صدر تک کسی کوبھی ملک کے شہروں میں آزادانہ آمدورفت کی اجازت نہیں اور اسرائیل کی طرف سے قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں اس لیے نیشنل کونسل کا اجلاس صرف بیرون ملک ہی ہوسکتا ہے۔ Â نیشنل کونسل کا اجلاس کوئی معمولی بات نہیں۔ اجلاس میں قومی تزویراتی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ ماضی کا جائزہ اور مستقبل کے لیے ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ فلسطین کی تمام نمائندہ قوتوں کو اس اجلاس میں شریک کیا جائے۔ فلسطین کی اندرون اور بیرون ملک قیادت کو اس میں شریک کیا جائےْ۔
سوال: فلسطینی اتھارٹی کے انفرادی فیصلوں سے قضیہ فلسطین پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ آپ اس بارے میں کیا رائے پیش کریں گے؟۔
حسن یوسف : قضیہ فلسطین کسی ایک فرد، جماعت یا گروپ کا نہیں بلکہ یہ تمام فلسطینیوں کا اجتماعی مسئلہ ہے۔ اس لیے حماس کا موقف یہ ہے کہ ایسا کوئی بھی قومی نوعیت کا فیصلہ انفرادی نہیں ہونا چاہیے۔ فلسطینی اتھارٹی کے پاس انتظامی اختیارات تو ہیں مگر جب تک تمام فلسطینی اسٹیک ہولڈرز کو شامل مشاورت نہ کرے وہ قومی نوعیت کا کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔ حال ہی میں ہمیں پتا چلا کہ امریکا کا ایک وفد اسرائیل اور فلسطین کے دورے پرآیا اور اس وفد نے صدر محمود عباس سے بھی ملاقات کی۔ بعد ازاں اس وفد نے اسرائیلی لیڈر شپ سے بھی ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں فلسطینی اتھارٹی نے امریکی وفد کے ساتھ کیا بات کی اس کے لیے دوسری کسی تنظیم یا جماعت کے ساتھ کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ انتظامی حد تک فلسطینی اتھارٹی کو اختیارات حاصل ہیں مگر القدس، پناہ گزینوں، پانی، سرحدوں اور خود مختاری جیسے معاملات پر فلسطینی اتھارٹی کافی نہیں اور نہ ہی اس کا فیصلہ پوری قوم کا نمائندہ فیصلہ تصور ہوگا۔
سوال: امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ مسئلہ فلسطین کا علاقائی حل پیش کررہے ہیں۔ وہ یہ حل صدر عباس اور نیتن یاھو سے ملاقات میں ان کے سامنے پیش کریں گے۔ آپ کے خیال میں امریکا کیا نیا فارمولہ پیش کررہا ہے اور اس کے کس حد تک قابل قبول ہونے کے امکانات ہیں؟۔
حسن یوسف: فلسطینی قوم کو بائی پاس کرکے جو بھی فلسطین کا حل نکالا جائے گا وہ قبول نہیں ہوگا۔ فلسطینی قوم کے دیرینہ مطالبات اور حقوق ہیں۔ ہم نے بنیادی مطالبات کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ ہزاروں شہداء کا خون پیش کیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی اسرائیلی زندانوں میں قید ہیں۔ ایسا کوئی حل جس میں پوری فلسطینی قومی قیادت کو شامل نہ کیا جائے نہ صرف حماس کی جانب سے مسترد کیا جائے گا بلکہ کوئی بھی فلسطینی ایسے نام نہاد حل کو قبول نہیں کرے گا۔
سوال: قطر اور تین خلیجی ملکوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات میں حماس کو بھی درمیان میں دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ حماس کی بیرون ملک قیادت قطر میں بھی موجود ہے۔ آپ اس اختلاف کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
حسن یوسف: حماس کی اپنی ایک خارجہ پالیسی ہے۔ اس پالیسی کا اہم نکتہ یہ ہے کہ حماس کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ ہماری جنگ اور کشمکش کا محصور صرف اسرائیل ہے۔ حالانکہ حماس کی قیادت کو بیرون ملک بھی صہیونی دشمن نے قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنایا۔ مگر ہمیں یہ سن کر بہت افسوس ہوا کہ بعض عرب ممالک کے سفیر اور وزراء خلیجی ممالک میں پائے جانے والے سفارتی تنازع میں حماس کو بھی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ بعض عرب وزراء نے فلسطینی تحریک آزادی کا مذاق اڑایا اور فلسطینی مزاحمتی قوتوں کو دہشت گرد قرار دینے کی مذموم کوشش کی۔
حماس کی کسی دوسرے مسلمان یا عرب ملک کے ساتھ کوئی لڑائی جھگڑا نہیں۔ حماس کے دوسرے کئی ممالک میں دفاتر موجود ہیں مگر ہم نے آج تک کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کی۔ حماس صرف فلسطینی قوم کے حقوق کے حصول کے لیے جنگ لڑ رہی ہے۔ ہر وہ ملک جو فلسطینی قوم کے حقوق کی بات کرتا ہے حماس اس کا احترام کرتی اور اس کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کی خواہاں ہے۔