غزہ – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) گذشتہ ہفتے 12اکتوبر کو فلسطینی دھڑوں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور صدر عباس کی جماعت فتح موومنٹ نے مصر کی ثالثی کے تحت قاہرہ میں تین روز تک مسلسل مذاکرات کے بعد تاریخی مصالحتی معاہدہ کیا۔ دونوں جماعتوں کی سرکردہ قیادت کے درمیان 25 گھنٹے مذاکرات جاری رہے۔
مصالحتی مذاکرات کے دوران دونوں جماعتوں کے درمیان زیربحث امور کے حوالے سے حماس کے سیاسی شعبے کے نائب صدر صالح العاروری نے تفصیلات بیان ہیں۔’القدس‘ اخبار کو دیے گئے تفصیلی انٹرویو میں العاروری نے بتایا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان کن اہم ایشوز پر بات چیت کی گئی اور آخر کار دونوں جماعتوں نے مصالحتی معاہدہ کیا۔
ذیل میں العاروری کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے اہم اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں۔
سب سے اہم موضوع
حماس رہنما نے اپنے انٹرویو میں قاہرہ میں دو روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کے اہم موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلے مرحلے میں سب سے اہم عنوان جس پر بات چیت کی گئی وہ غزہ کی پٹی میں قومی حکومت کو اختیارات کی منتقلی تھا۔ دونوں جماعتوں نے سنہ 2011ء کو قاہرہ میں طے پائے معاہدے ہی کی شرائط کو تسلیم کیا اور انہی شرائط کے تحت غزہ کی پٹی میں قومی حکومت کو انتظامی امور سونپنے پر اتفاق کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ملاقات میں اس بات سے اتفاق کیا گیا کہ قومی حکومت جس طرح غرب اردن میں کام کرے گی، اسی جذبے کے ساتھ غزہ کی پٹی کے عوامی مسائل حل کیے جائیں گے۔ حماس اور دوسری تمام جماعتیں غزہ میں قومی حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے بھرپور تعاون کریں گی، غزہ کی ناکہ بندی کا خاتمہ، بجلی، پانی، علاج اور دیگر اہم مسائل کے حل کے لیے حکومت کو مکمل طور پر سپورٹ کی جائے گی۔
متواتر اجلاس
حماس اور فتح کے درمیان دو روز تک جاری رہنے والے میراتھن مذاکرات کے چار سیشن ہوئے۔ پہلے روز 11 گھنٹے اور دوسرے روز مسلسل 14 گھنٹے مصالحتی بات چیت جاری رہی۔
العاروری نے کہا کہ ہم پہلے اور دوسرے روز کے مذاکراتی سیشن کو تقسیم نہیں کرتے۔ پہلے روز دن گیارہ بجے سے رات گیارہ بجے تک مذاکرات جاری رہے جب کہ دوسرے روز دن گیارہ سے رات دو بجے تک باتÂ چیت جاری رہی۔ مذاکرات میں دونوں جماعتوں کے درمیان 10 سال سے چلے آرہے اختلافات کو ختم کرنے اور مخصوص حالات میں فلسطین میں قومی حکومت کی تشکیل اور اسے مستحکم کرنے کے طریقہ کار پر غور کیا گیا۔
جامع نظام
حماس اور فتح کے درمیان جاری مصالحتی بات چیت میں فلسطین میں قومی حکومت اور جامعہ نظام کی تشکیل کے لیے گہرائی کے ساتھ بات چیت کی گئی۔ مذاکرات کے دوران بعض اوقات پیچیدہ اور مشکل مسائل پر متضاد آراء بھی آئیں۔ تاہم دونوں جماعتوں کی قیادت چونکہ ایک مکمل اور جامع منصوبہ تشکیل دینے کے لیے پرعزم تھی جس میں فلسطین میں قومی حکومت کی تشکیل، اس کے ساتھ تعاون، اس کی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں سپورٹ اور فلسطینیوں میں مصالحت کا پائیدار سفر شروع کرنا جیسے اہم امور شامل تھے۔
غزہ کے ملازمین کا معاملہ
صالح العاروری سے قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات میں غزہ کی پٹی کے 30 ہزار ملازمین کے مستقبل کے بارے میں ہونے والی بحث کی بابت سوال پوچھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ قاہرہ اجلاس میں پہلا فیصلہ غزہ کی پٹی کی انتظامی کمیٹی کو تحلیل کرنا تھا۔ اس پر ہمیں فخر ہے کہ حماس نے پہلے ہی غزہ کی انتظامی کمیٹی تحلیل کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ اس کے بعد حماس اور فتح کے درمیان مذاکرات کا دروازہ کھولا گیا۔ اس کے بعد غزہ کی پٹی میں نئے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل کی ذمہ داری قومی حکومت کے سپرد کی گئی۔ گذشتہ دس سال کے دوران حماس کے دور حکومت میں بھرتی ہونے والے سرکاری ملازمین کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک تکنیکی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ کمیٹی ایک ماہ کے اندر اندر اپنی سفارشات پیش کرے گی۔
اجلاس میں طے پایا کہ فلسطینی قومی حکومت تنخواہوں کی ادائیگی کی ذمہ دار ہوگی۔ ملازمین کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے قائم کردہ کمیٹی میں حماس اور فتح کے ارکان کو شامل کیا گیا۔
مصالحت کے بعد غزہ کی پٹی کے ملازمین کے بارے میں جو بھی فییصلہ ہوا وہ اتفاق رائے سے ہوگا۔ اعدادو شمار سے اندازہ ہوا ہے کہ غزہ کے سابقہ ملازمین کو برقرار رکھنے کے بعد مزید پانچ ہزار نئے ملازمین کو بھرتی کرنے کی ضرورت ہے۔
سنہ 2007ء میں غزہ کی سول انتظامیہ کے ملازمین کی تعداد 34 ہزار تھی جب کہ اس وقت معترضہ ملازمین کی تعداد 30 ہزار ہے۔ غزہ کو مزید ہزاروں کی تعداد میں ملازمین کی ضرورت ہے۔
مصر کا کردار
فلسطینیوں میں قومی مصالحت کے لیے مصر کے کردار کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں العاروری نے کہا کہ فلسطینیوں میں صلح کا معاہدہ مصری حکومت کی مساعی کا نتیجہ ہے۔ مصر نے فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کے لیے بڑے بھائی کا کردار ادا کیا۔ دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات کے دوران انتہائی پیچیدہ مسائل کے حل اور ان میں اتفاق رائے پیدا کرنے میں مصر کا کلیدی کردار ہے۔ مذاکرات کے دوران معلوم ہوا کہ مصر فلسطینیوں میں یکجہتی کا کس حد تک خواہاں ہے۔
حماس اور فتح کے درمیان اتحاد اور یکجہتی میں مصر نے مضبوط کردار ادا کیا۔ قاہرہ کی مساعی سے نہ صرف حماس اور فتح ایک دوسرے کے قریب آئیں بلکہ غزہ اور غرب اردن کو ایک نمائندہ قومی حکومت کے تحت یکجا کردیا گیا۔
سیکیورٹی کی صورت حال
غزہ کی پٹی میں سیکیورٹی کے امور کیسے انجام دیے جائیں گے؟ اس سوال کے جواب میں صالح العاروری نے کہا کہ دونوں جماعتوں ، حماس اور فتح کی اولین ترجیح فلسطین میں قومی حکومت کو مستحکم اور مضبوط کرنا ہے۔ اس کے لیے سول شعبے، سیکیورٹی، پولیس، داخلہ اور فائر بریگیڈ سمیت کئی دوسرے شعبوں میں کام کے طریقہ کار بات چیت کی گئی۔ یہ طے پایا کہ مذکورہ تمام محکمے قومی حکومت کے ماتحت کام کریں گے۔ غرب اردن کی سیکیورٹی قیادت غزہ میں سیکیورٹی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے جلد غزہ کا دورہ کرے گی۔ اس کے بعد غزہ اور غرب اردن کی سیکیورٹی قیادت اپنا مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دے گی۔
انہوں نے کہا کہ دونوں جماعتوں کا ہدف یہ ہے کہ غزہ اور غرب اردن کے سیکیورٹی اداروں کو باہم مدغم کیسے کیا جائے۔ نئے سیکیورٹی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے غزہ اور غرب اردن سے مساوی تعداد میں افراد لیے جائیں گے۔ سیکیورٹی ڈھانچے کی تشکیل سیاسی تعلقات سے مکمل طور پر بالا ترہوگی۔
مرحلہ وار حکمت علی
حماس کے سیاسی شعبے کے نائب صدر صالح العاروری نے قومی مصالحت کے بعد مرحلہ وار حکمت عملی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مصالحتی مذاکرات میں بے اتفاقی کا سبب بننے والے تمام موضوعات پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ کئی نکات ایسے تھے جن پر سابقہ معاہدوں میں اتفاق رائے ہوچکا تھا، ان پر صرف عمل درآمد کرنا باقی تھا۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں العاروری نے کہا کہ مرحلہ وار حکمت عملی کے حوالے سے بات چیت میں پہلے مرحلے پر فلسطین میں قومی حکومت کی تشکیل تھی۔ یہ سب سے مشکل اور صبر ازما مرحلہ ہے،Â جس میں سرخرو ہونے کے لیے تمام جماعتوں کو صبرو تحمل کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ اگلے مراحل میں تنظیم آزادی فلسطین کی تشکیل نو ہوگی۔ مصالحتی بات چیت میں دونوں جماعتوں کے اتفاق کیا ہے کہ تنظیم آزادی فلسطین میں تمام جماعتوں کو ان کی حیثیت کےمطابق نمائندگی دی جائے گی۔ اس کے بعد فلسطین نیشنل کونسل کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔ نیشنل کونسل بھی تمام فلسطینی قوتوں کی نمائندہ ہوگی۔ آئندہ اقدامات میں فلسطینی مجلس قانون ساز کو فعال کرنا، قانون ساز کونسل کے اجلاس بلانے کی دعوت دینا، پارلیمانی اور صدارتی انتخابات جیسے اہم مسائل کو مرحلہ وار طریقے سے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
نومبر میں ہونے والے مذاکرات
صالح العاروری نے کہا کہ قاہرہ میں 12 اکتوبر کو طے پائے مصالحتی معاہدے میں طے پایا ہے کہ تمام فلسطینی دھڑے 21 نومبر 2017ء کو جامع مذاکرات کریں گے۔ ان مذاکرات میں شہری آزادیوں، انسانی حقوق، انتشار کے عرصے میں زیادیوں کا شکار ہونے والے شہریوں کی بحال، تمام جماعتوں میں مصالحت، انتخابات، تنظیم آزادی فلسطین اور نیشنل کونسل کے ڈھانچے کی تشکیل نو جیسے اہم موضوعات پر تفصیل اور جامع بات چیت کی جائے گی۔
اس سے قبل حماس اور فتح کی قیادت 11 یا 12 نومبر کو قاہرہ میں مذاکرات کریں گی۔ ان مذاکرات میں ایک ماہ کے دوران ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔
دونوں جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ زیادہ مشکل اور سب سے برے حل طلب مسائل کے حل پر پہلے اتفاق رائے قائم کیا جائے تاکہ دوبارہ انتشار کی طرف پلٹنے کا دروازہ بند ہوجائے۔ دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے بھرپور یقین دہانیا کرائی ہیں۔ حماس اپنے وعدوں پر قائم ہے اور توقع ہے کہ تحریک فتح بھی اپنے قول وقرار پرقائم رہے گی۔
فلسطینی قانون ساز کونسل
فلسطینی مجلس قانون ساز ایک عضو معطل بن کر رہ گئی ہے۔ فلسطینی جماعتوں حماس اور فتح کے درمیان ہونے والی بات چیت میں قانون ساز کونسل کو فعال کرنے پر بھی بات چیت کی گئی۔
العاروری نے اس بارے میں کہا کہ صدر مجلس قانون ساز کو اپنا آئینی کردار ادا کرنے کے لیے صدارتی فرمان جاری کریں گے۔ اس حوالے سے 21 نومبر ہو نے والے اجلاس میں بھی بحث کی جائے گی۔ غزہ اور غرب اردن میں فلسطینی قانون ساز کو باہم یکجا کرنے کے طریقہ کار پر بھی تفصیلی غور کیا جائے گا۔
پی ایل او
تنظیم آزادی فلسطین کی تشکیل نوکے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں العاروری نے کہا کہ مذاکرات میں طے پایا ہے کہ تنظیم آزادی فلسطین’پی ایل او‘ پوری قوم کی نمائندہ ہوگی۔ اس میں تمام فلسطینی قوتوں کو ان کی حیثیت کے مطابق شامل کیا جائے گا۔ تحریک فتح کے ساتھ پی ایل او میں حماس اور اسلامی جہاد کو بھی نمائندگی حاصل ہوگی۔
فلسطینی مجلس قانون ساز کے انتخابات اور صدارتی انتخابات پر بھی تفصیلی غور کیا گیا۔ تاہم یہ تمام اقدامات مرحلہ وار آئندہ چند ماہ کے اندر اندر عمل درآمد سے گذارے جائیں گے۔
بنیادی اصولوں پر اتفاق
فلسطینی قوم کے بنیادی اور دیرینہ مطالبات میں اسرائیلی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینیوں کا مسئلہ سر فہرست ہے۔
حماس اور فتح کے درمیان طے پائے مصالحتی معاہدے میں دونوں جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اسرائیلی جیلوں میں پابند سلاسل فلسطینیوں کی رہائی کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔ اسی طرح سیاسی بنیادوں پر پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بند کیا جائے گا۔ دونوں جماعتوں کو آئندہ غزہ اور مغربی کنارے میں سیاسی بنیادوں پر کارکنان کی گرفتاریوں کی شکایت نہیں آئے گی۔
غرب اردن میں فلسطینی اتھارٹی کی جیلوں میں سیاسی بنیادوں پر ڈالے گئے تمام کارکنوں کو باعزت رہا کیا جائے گا۔
عرب اور اسلامی دنیا کی حمایت
صالح العاروری سے پوچھا گیا کہ آپ نے قاہرہ میں فتح کے رہنما عزام الاحمد کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اردن اور سعودی عرب سمیت تمام عرب اور مسلمان ممالک نے فلسطینیوں کے درمیان مصالحت کی حمایت کی ہے۔
اس پر العاروری نے کہا کہ کوئی ایسا عرب یا مسلمان ملک نہیں جس نے فلسطینیوں میں مصالحت کو خوش آئند قرار نہ دیا ہو۔ حتیٰ کہ مغربی دنیاÂ اور اقوام متحدہ نے بھی اسے اہم پیش رفت قرار دیا۔ تاہمÂ اسرائیل، امریکا یا ان کے انتہائی قریبی ہم خیال ممالک کی طرف سے فلسطینیوں میں مصالحت پر منفی ردعمل خلاف توقع نہیں۔
اسرائیل کی انتہا پسند حکومت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ فلسطینویں میںÂ اتحاد کی مساعی جمیلہ کی حمایت کرے گی۔ کیونکہ فلسطینیوں میں اتحاد اسرائیل کے مفاد میں نہیں۔ اسرائیل فلسطینیوں کو باہم دست وگریباں رکھنا چاہتا ہے۔
جنگ اور امن کے فیصلوں میں شراکت
صالح العاروری سے پوچھا گیا کہ آپ کہہ چکے ہیں کہ فلسطینیوں میں مصالحت اسرائیل کے ساتھ جنگ یا امن کے فیصلے پر اثرانداز ہوگی؟ اس کی وضاحت کریں۔
انہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ پورا فلسطین ہم سب کا مشترکہ وطن ہے۔ اس وطن کے دفاع اور فلسطینی قوم کے حقوق کے لیے کسی بھی قسم کا فیصلہ متفقہ ہونا چاہیے۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ کرنی ہے یا امن کا اعلان کرنا ہے۔ یہ فیصلہ کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ اجتماعی ہونا چاہیے۔
تاہم مذاکرات میں یہ طے پایا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی طرف سے فلسطینیوں کو لاحق خطرات اور چیلنجز کا مقابلہ مل کر کیا جائے گا۔
فلسطینیوں میں مصالحت کو مزید وسعت دی جائے گی اور اس میں علاقائی اور عالمی قوتوں کوبھی شامل کیاجائے گا۔ امریکا کی طرف سے ’صدی کے فیصلے‘ پر بحث وتمحیص کے لیے مصر کے شرم الشیخ شہر میں علاقائی ممالک اور عالمی طاقتوں پر مشتمل کانفرنسیں منعقد کی جائیں گی۔
قومی حکمت عملی
اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مشترکہ قومی حکمت عملی کیا ہوگی؟ کیا تمام فلسطینی سیاسی محاذ پر اسرائیل کا مقابلہ کریں گے یا سیاسی اور مزاحمت حکمت عملی ایک ساتھ آگے بڑھائی جائے گی؟۔
اس پر بات پر بات کرتے ہوئے العاروری نے کہا کہ اس حوالے سے تمام جماعتیں مل کر قومی حکمت عملی تشکیل دیں گی۔ اسرائیل کے خلاف مشترکہ قومی حکمت عملی کے کئی نکات پر سنہ 2011ء میں اتفاق ہو چکا تھا۔ اب ان پر صرف عمل درآمد کرنا باقی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم تحریک فتح اور دیگر فلسطینی جماعتوں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ مشترکہ قومی حکمت عملی کے طے شدہ نکات پرعمل درآمد کو یقینی بنائیں گی۔
قومی حکمت عملی میں صہیونی پروگرام کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کرنا شامل ہے۔ صہیونی ریاست کا مقابلہ اور فلسطینی قوم کے غصب شدہ حقوق کا حصول نہ صرف فلسطینیوں کا حق بلکہ ایک قومی فریضہ ہے جس کے لیے عالمی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے تمام ممکنہ وسائل سے جدو جہد جاری رکھی جائے گی۔
پیش آئند تبدیلی
فلسطین میں قومی مصالحت کے نتیجے میں آنے والی ممکنہ تبدیلیوں پر بات کرتے ہوئے العاروری نے کہا کہ قومی صالحت تمام فلسطینی قوم بالخصوص غزہ کی پٹی کےعوام کے لیے غیرمعمولی حد تک مفید ہوگی۔
فلسطینی قومی حکومت کو اختیارات تفویض کیے جانے کے بعد غزہ کی پٹی کے دیرینہ مسائل کے حل کی راہ ہموار ہوگی۔ فلسطینی قومی حکومت مستحکم ہونے کے بعد غزہ کی گذرگاہیں کھول دی جائیں گی۔ یکم دسمبر تک غزہ کی پٹی کے تمام انتظامی امور قومی حکومت کے حوالے کردیے جائیں گے۔ یوں فلسطین بالخصوص غرب اردن اور غزہ میں تبدیلی کا ایک نیا سفر شروع ہوگا۔
فلسطینی گذرگاہوں بالخصوص رفح گذرگاہ کا انتظامی اور سیکیورٹی کنٹرول صدارتی گارڈز کے حوالے کیا جائے گا۔