مقبوضہ بیت المقدس – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اہل ایمان کے لیے مسلمانوں کے قبلہ اوّل (مسجد اقصیٰ) کے بارے میں اہم معلومات بلا شبہ دلچسپی کی حامل ہوں گی۔ رپورٹ میں قبلہ اوّل کے حوالے سے معلومات پر مبنی سلسلہ وار رپورٹس میں درج ذیل سطور میں مسجد کے تاریخی دروازوں کا تعارف کیا جا رہا ہے۔
مسجد اقصیٰ کے کل 15 تاریخی دروازے ہیں جو کسی تاریخی اسلامی شخصیت یا کسی خاص موقع کی نسبت سے جانے جاتے ہیں۔ ان پندرہ دروازوں میں سے 10 کھلے ہیں مگر پانچ دروازے صیہونیوں کی وجہ سے یا دیگر وجوہات کی بناء پر بند ہیں۔ کھلے دسÂ دروازوں میں باب الاسباط، باب حطۃ، باب العتم تین دروازے مسجد کی شمالی دیوار میں موجود ہیں جب کہ باب المغاربہ (مراکشی دروازہ)، باب الغوانمہ، باب الناظر، باب الحدید، باب المطہرہ، باب القطانین، باب السلسلہ سات دروازے مسجد کی مغربی دیوار میں بنائے گئے ہیں۔ یہ سب کھلے دروازے ہیں، ان میں مراکشی دروازے کے سوا باقی سب دروازوں سے مسلمانوں قبلہ اوّل میں آتے جاتے ہیں۔ باب المغاربہ سنہ 1967ء کی جنگ کے بعد فلسطینیوں کی آمد روفت کے لیے بند ہے اور اس باب سے غاصب صیہونی مسجد اقصیٰ پر دھاوے بولتے ہیں۔اسی طرح پانچ دروازے باب الثلاثی، باب المزدوج، باب المفرد، باب الرحمۃ اوعر باب الجنائز مسجد کی مغربی اور مشرقی سمتوں میں واقع ہیں۔ یہ سب بند ہیں۔ ان میں باب المفرد کا صرف نشان باقی ہے۔ یہاں اب عملا کوئی گیٹ موجود نہیں۔
قبلہ اوّل کے موجودہ کھلے ابواب کا ایک تعارف
دور ایوبی کی یاد گار ’باب الاسباط‘
قبلہ اوّل کے اہم ترین داخلی دروازون مین مسجد کی شمالی دیوار میں مشرق کی سمت میں بنا ’باب الاسباط‘ ہے۔ یہ دروازہ بیت المقدس سے باہر کے نمازیوں کے لیے خاص ہے۔
اس باب کا ایک پرانا نام ‘ستی مریم‘ بھی ہے۔ یہاں قریب ہی ’القدیسہ حنا‘ نامی ایک گرجا گھر ہے۔ عیسائیوں کے عقائد کے مطابق یہ جگہ حضرت مریم علیھا السلام کی جائے پیدائش ہے۔ یہاں پر مدرسہ الاصلاحیہ واقع ہے۔
دروازے کا مدخل (داخلی راستہ) کمان کی شکل میں ہے اور اس کی بلندی چار میٹر ہے۔ اگرچہ یہ صدیوں پرانا دروازہ ہے مگر اسے دور ایوبی کے سلطان شاہ المعظم عیسیٰ نے 1213ء میں دوبارہ تیار کرایا تھا۔ بعد ازاں ممالیک اور خلافت عثمانیہ کے دور میں سنہ 1817ء میں اس کی دوبارہ مرمت کرائی گئی۔
یہ ایک کھلا دروازہ ہے جس سے کارین اور ایمبولینسں مسجد کے اندر تک جاسکتی ہیں۔ ہنگامی حالات میں یہاں سے گاڑیوں کو اندر جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ سنہ 1990ء، 1996ء اور 2000ء میں صہیونیوں کے ہاتھوں مسجد میں ہونے والے قتل عام کے وقت ایمبولینسوں کو اس دروازے سے اندر جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
باب الحطۃ دور ایوبی اور عثمانی کی یاد گار
’باب الحطۃ‘ مسجد اقصیٰ کی شمالی گیلری میں باب الاسباط اور باب شاہ فیصل کے درمیان ہے۔ اسے بھی قبلہ اوّل کے پرانے ابواب میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی تاریخ تعمیر کا صحیح اندازہ نہیں تاہم صلاح الدین ایوبی اور خلافت عثمانیہ کے ادوار میں اس کی تعمیر نو کی گئی تھی۔
اس کا داخلی مقام مستطیل شکل میں ہے اور اسے نیچے سے اوپر تک پھتروں سے تیار کیا گیا ہے۔ اس میں پرانے زمانے میں شمع دان بھی رکھے جاتے تھے۔
باب الحطۃ القدس کے حارۃ السعدیہ کے قریب واقع ہے۔ یہ قبلہ اوّل کے ان تین دروازوں میں سے ایک ہے جنہیں قابض صیہونی مغرب، عشاء اور فجر کی نمازوں کے لیے کھولتے ہیں۔
باب العتم
باب العتم کاÂ نیا نام ’باب شاہ فیصل‘ ہے اور یہ دروازہ مسجد کی شمالی سمت میں واقع ہے۔ اس کی تجدید 610ھ بمطابق 1213ء میں ایوبی فرمانروا شاہ المعظم شرف الدین عیسیٰ کے دور میں کی گئی۔
اس باب کے اور کئی نام ہیں۔ جن میں باب شرف الانبیاء اور باب الملک الفیصل زیادہ مشہور ہیں۔ باب شاہ فیصل کی ایک نسبت عراق کے فرمانروا ملک الفیصل مرحوم کی طرف کی جاتی ہے۔ انہوں نے جب مسجد اقصیٰ کی زیارت کی تو اس وقت اسلامی کونسل نے اس باب کا یہ نام ان کی نسبت سے موسوم کردیا تھا۔ انہوں نے اس باب کی تعمیر ومرمت کے لیے رقم عطیہ کی تھی۔
اس کے علاوہ اسے باب الدواداریہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ المدواداریہ اسکول سے متصل ہے۔
باب الغوانمہ
مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار میں بنا مسجد کی شمالی میں واقع باب الغوانمہ نسبتا ایک چھوٹا گیٹ ہے۔ یہ گیٹ مستطیل شکل میں ہے۔ اسے باب الدرج الغوانمہ اور باب بنی غانم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تینوں نام حارۃ الغوانمہ کی نسبت سے دیے گئے ہیں۔الغانمہ ایک عرب خاندان تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ صلاح الدین ایوبی کے ہمراہ بیت المقدس آیا اور اس جگہ قیام پذیر ہوا۔ اسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی نسبت سےÂ ’باب الخلیل‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اغلب امکان یہ ہے کہ یہ دروازہ اموی خلافت میں بنایا گیا۔ اسے باب الولید بن عبدالملک بھی کہا جاتا ہے۔ممالیک کےدور میں 1307ء میں اس کی تجدید کی گئی اور اس کی تجدید کا شرف مملوک فرمانروا شاہ الناصر محمد بن القلاوون کو جاتا ہے۔
باب الناظر
مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار میں شمالی کی سمت میں باب الغوانمہ کے بعد یہ دوسرا دروازہ ہے۔ مستطیل شکل کا یہ ایک بھاری بھرکم دروازہ ہے۔ اس کی اونچائی 4.5 میٹر ہے۔ اس کی تجدید 1203ء میں شاہ المعظم عیسیٰ کےدور میں کی گئی۔
اسے حرمین الشریفین کی نسبت سے باب الناظر کہا جاتا ہے۔ ممالیک حکومت کے دور میں الناظر ایک عہدہ تھا اور اس عہدیدار کی ذمہ داری قبلہ اوّل کی دیکھ بحال اور نگرانی تھی۔ مسجد اقصیٰ کی طرح مسجد ابراہیمی اور مسجد حرام اور مسجد نبوی کے لیے بھی الناظر مقررکیے جاتے تھے۔
باب الناظر کا ایک دوسرا نام ‘ب المجلس‘ بھی ہے۔ اس دروازے کے اوپر المنکجیہ اسکول قائم ہے۔ برطانوی استبداد کے دور میں یہاں پر فلسطین کی سپریم اسلامی کونسل کا دفتر قائم تھا۔ بعد ازاں اسلامی کونسل کا دفتر بیت المقدس میں فلسطینی محکمہ اوقاف کو منتقل کردیا گیا۔
یہ دروازہ صرف مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیوں کے لیے کھولا جاتا ہے۔
باب الحدید
اپنی تعمیر میں انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب ’باب الحدید‘ کا داخلی راستہ مستطیل شکل میں ہے۔ یہ باب مسجد اقصیٰ کی مغربی گیلری کے ساتھÂ باب الناظر اور باب القطانین کے درمیان واقع ہے۔ اسے باب ارغون بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عربی کے الحدید ہی کا مترادف ہے۔ یہ دروازہ مملوک فرمانروا ارغون الکاملی کی یاد یگار ہے۔ الکاملی نے 1357ء میں اس باب کی تجدید کی تھی۔
باب القطانین
باب القطانین مسجد اقصیٰ کی مغربی سمت میں باب الحدید اور باب المطہرۃ کے درمیان واقع ہے۔
یہ باب بھی ممالیک کے دور کی حسین یادگار ہے۔ اسے سلطان محمد بن القلاوون نے 1336ء میں تعمیر کرایا۔ یہ اپنی زینت اور خوبصورتی میں قبلہ اوّل کے دیدہ زیب ابواب مین سے ایک ہے۔ اس کی تیاری میں قدیم دور کی خوبصورت نقش ونگاری کی گئی ہے۔
باب المطہرۃ
باب المطہرۃ قبلہ اوّل کی مغربی دیوار میں باب القطانین کے قریب واقع ہے۔ اس کے اس کے شمال میں الرباط الزمنی، اور جنوب میں مدرسہ عثمانیہ واقعÂ ہیں۔ یہ دونوں مقامات تاریخی القدس خاندانوں کی قیام گاہیں ہیں۔ باب المطہرۃ کی اونچائی 3.5 میٹر ہے اور اسے 1266ء میں مملوک بادشاہ علاء الدین البصیری نے تعمیر کرایا تھا۔
اسے باب المتوضا بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نام اسے قریب واقع وضو گاہ کی نسبت دیا گیا ہے۔
باب المطہرۃ سلطان صلاح الدین ایوبی میں قائم کیا گیا۔ بعد ازاں یہاں پر وضو خانہہ ابو بکر ایوب نے بنایا۔ بعض روایات میں شاہ المعظم عیسیٰ الایوبی کو اس باب کا بانی کہا جاتا ہے۔ بعد ازاں شہزادہ علاء الدین البصیری نے اس کی تجدید کی۔ سنہ 1980ء کے عشرے میں فلسطینی محکمہ اوقاف نے بھی باب المطہرۃ اور اس سے متصل وضو خانہ کی تجدید کی تھی۔
باب السلسلہ
یہ دروازہ مسجد اقصیٰ کے جنوب میں مغربی دیوار میں واقع ہے۔ قرین قیاس یہ ہے کہ اسے ایوبی دور میں 1200 ء میں بنایا گیا تھا۔
فجر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کے لیے کھولے جانے والے قبلہ اوّل کے تین دروازوں میں سے ایکÂ باب السلسلہ بھی ہے۔ تاہم سنہ 1967ء کے بعد ظہر اور عصر کی نمازوں کے لیے یہ دروازہ بند رہتا ہے۔
باب المغاربہ
مسجد اقصیٰ کے تاریخی اور مشہور دروازوں میں سے ایک باب المغاربہ ہے جو مسجد کی مغربی دیوار کے قریب جنوب میں واقع ہے۔ اس کے بالمقابل دیوار براق ہے۔ اسے باب البراق اور باب النبی بھی کہا جاتا ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی باب سے معراج کی رات مسجد میں داخل ہوئے۔ یہ بھی مشہور ہے کہ فتح بیت المقدس کے وقت خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسی دراوزے سے مسجد میں داخل ہوئے تھے۔ یہ درازہ جامع القبلی کے قریب واقع ہے۔
باب الغاربہ مملوک فرمانروا سلطان الناصر محمد بن قلاوونن کے دور میں 1313ء میں تعمیر کیا گیا۔ اسے یہ نام قریب ہی واقع جامع مسجد المغاربہ کی نسبت سے دیا گیا۔ یہ مسجد قبلہ اوّل کے اندر ہے۔ اس کے بیرونی حصے میں حارۃ المغاربہ واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں مراکش سے ان کے ساتھ آنے والے مجاھدین یہاں قیام کیا۔ یوں یہ جگہ الحارۃ المغاربہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ بعد ازاں الافضل بن صلاح الدین نے یہ جگہ ان مجاھدین کو وقف کردی تھی۔
باب المغاربہ سنہ 1967ء تک قبلہ اوّل میں مسلمانوں کی آمد ورفت کے لیے کھلا رہا مگر اس کے بعد اب اس دروازے کو صیہونی آباد کار قبلہ اوّل پر دھاووں کے لیے استعمال کرتے ہیں اور فلسطینی مسلمانوں کا اس دروازے سے مسجد میں داخلہ منع ہے۔