غزہ – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) سنہ 2006ء فلسطینی پارلیمانی تاریخ کا ایک نیا موڑ تھا جب سنہ 1994ء سے فلسطینی اتھارٹی کے تمام کلیدی عہدوں پر قابض تحریک ’فتح‘ کو اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے ایک نئی سیاسی، عوامی ، مزاحمتی اور عسکری تنظیم نے بتایا کہ فلسطین میں صرف فتح ہی نہیں بلکہ عوام کی مقبولیت کسی اور کے پاس بھی ہے۔
حماس فلسطینی عوام کی ایک مقبول سیاسی اور پارلیمانی جماعت بن کرابھری تو تحریک فتح نے بغلین بجانا شروع کردیں۔ حماس کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانے کی کوششیں شروع کردی گئیں۔ حماس کا مقابلہ ایک طرف قابض اور غاصب صہیونی دشمن کے ساتھ تھا جس نے فلسطینی عوام کو حماس کو ووٹ دینے کی سزا کے طور پرغزہ کا معاشی محاصرہ کردیا۔ دوسری جانب حماس نے فلسطین میں تمام قومی دھاروں کو ساتھ ملا کر قومی کاز کے لیے جدو جہد کا اعلان کیا مگر تحریک فتح کی طرف سے بار بار عہدو پیمان کے باوجود حقیقی سیاسی شراکت اور مفاہمت کے بجائے حماس کو حیلوں اور بہانوں سے دیوار سے لگانے، جماعت کو کمزور کرنے اور اسے عوام میں متنازع بنانے کی نامقبول کوششیں کی گئیں۔ یہ سلسلہ گذشتہ ایک عشرے سے جاری ہے، مگر حماس کے پایہ استقلال میں ذرا برابر بھی لغزش نہیں آئی۔سیاسی دائرہ تنگ کرنے کی کوشش
سنہ 2006ء میں جب حماس نے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو تحریک فتح کو یہ اندازہ ہرگز نہیں تھا کہ حماس عوام میں اس قدر مقبول ہے۔ اس کے باوجود فتحاوی قیادت نے حماس کے انتخابی عمل میں حصہ لینے پر چیخ پکار شروع کردی۔ فلسطینی اتھارٹی کے مدارالمہام عوامی مجالس میں یہ باور کرانے لگے کہ حماس کو ووٹ دینے پر فلسطینی قوم خود ہی اس کے نتائج کی ذمہ دار ہوگی۔
سنہ 2006ء کے پارلیمانی انتخابات میں جب فلسطینی عوام نے حماس کو بھاری اکثریت سے اپنی نمائندہ سیاسی قوت کے طور پر اپنے ووٹ کے حق سے قبول کیا فلسطینی اتھارٹی کے اہم عہدیداروں کو اس کا شدید صدمہ پہنچا۔ وہ تمام عناصر کو حماس کی عوامی مقبولت سے شاکی تھی یہ کہتے پائے گئے کہ اب فلسطینی اتھارٹی ایک مذہبی سیاسی جماعت کے ہاتھ میں جا رہی ہے۔
دوسری طرف اسرائیل نے فلسطینی قوم کو حماس کو ووٹ دینے کی سزا کے طور غزہ پراجتماعی پابندیاں عائد کردیں۔ اسرائیل نے حماس کی کامیابی کو کیا تسلیم کرنا تھا عالمی برادری کی طرف سے بھی فلسطینیوں کی جمہوریت پسندی پر شرمناک طرز عمل ظاہر کیا گیا۔ عالمی برادری کی طرف سے حماس پر دباؤ ڈالنے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور کرنے کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔
حماس کی بھاری اکثریت سے کامیابی کے باوجود فلسطینی اتھارٹی نے حماس کو کابینہ میں اہم وزارتیں دینے سے انکار کردیا۔ تحریک فتح نے بھی ہٹ دھرمی اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے حماس کی قیادت میں قومی حکومت میں شمولیت سے انکار کردیا۔ یہ انکار بھی حماس پر دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ تھا۔
حماس نے قومی حکومت کی تشکیل کے لیے ہزار جتن کیے۔ بالآخر ایک لولی لنگڑی حکومت تو قائم ہوگئی مگر تحریک فتح کی طرف سے حماس کے خلاف میڈیا پروپیگنڈے کا نیا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ یہ کہا جانے لگا کہ حماس کی حکومت چند دنوں کی مہمان ہے۔
تحریک فتح کی طرف سے ابلاغی جنگ اس حد تک شدت اختیار کرگئی اس کے نتیجے میں غزہ میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوگیا۔ غزہ میں حماس اور تحریک فتح کے کارکنوں کو باہم دست و گریباں کردیا گیا۔ بالاخر اس بدامنی اور انتشار کا وہی نتیجہ ہوا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ اس بے اتفاقی نے فلسطینی علاقوں میں دو متوازی حکومتیں قائم کردیں۔
سنہ2007ء میں حماس اور فتح کے درمیان محاذ آرائی نے دونوں بڑی جماعتوں کو ایک دوسرے سے دور کردیا۔ مگر اس کے باوجود حماس نے فتحاوی عہدیداروں کی حماقتوں سے درگذر کرتے ہوئے قومی مفاہمت کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ انہی کوششوں کے نتیجے میں سعودی عرب کی میزبانی میں حماس اور فتح کے درمیان ’معاہدہ مکہ‘ طے پایا۔
معاہدہ مکہ طے پانے کے بعد بھی فلسطینی دھڑوں میں عملا اتحاد تشکیل نہ پا سکا۔
غزہ کی پٹی ایک باغی علاقہ
فلسطینی اتھارٹی نے معاہدہ مکہ کی شرائط پرعمل درآمد کرانے کے بجائے شیطانی چالیں چلنا شروع کردیں۔ فلسطینی اتھارٹی نے انتقامی سیاست اپناتے ہوئے غزہ کی پٹی کے صحت ، تعلیم اور قانون نافذ کرنے والے شعبوں میں بھرتے ہونے والے ملازمین کی تنخواہوں کے ساتھ کھیل تماشا شروع کردیا۔
فلسطینی ملازمین کو انتقامی سیاست کی بھینٹ چڑھانا دراصل یہ ثابت کرنا تھا کہ اتھارٹی نہ صرف حماس کو اپنا حریف خیال کرتی ہے بلکہ وہ پورے غزہ کے عوام کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ یوں عملی طور پر غزہ کو باغی علاقہ قرار دینے کی سازشیں شروع کی گئیں تاکہ حماس پر معاشی دباؤ کے ذریعے دباؤ ڈال کر اسے جھکنے پرمجبور کیا جاسکے۔
فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ نے غزہ کی پٹی پر اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے تمام وسائل کا استعمال کیا۔ اگرانہیں اسرائیلی ٹینک پر سوار ہو کر غزہ آنے کا موقع دیا جاتا تو وہ اس سے بھی گریز نہ کرتے۔
سنہ 2008ء کے دوران غزہ کی پٹی میں حماس اور فتح کے درمیان Â 23 روز تک جاری رہنے والی کشیدگی نے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس کشیدگی نے غزہ کو تباہ کرکے رکھ دیا۔
اس کشیدگی کا تحریک فتح اور فلسطینی اتھارٹی کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ فلسطینی اتھارٹی غزہ پراپنا اقتدار بحال کرنا چاہتی تھی مگر حماس کے کارکنان نے اسے بچھاڑ ڈالا۔
اس کے بعد سنہ 2012ء میں عرب بہار کا آغاز ہوا۔ عرب بہاریہ نے حماس کے حوالے سے فراخی کے مواقع پیدا کیے یہ بہار بھی بہت تیزی کے ساتھ خزاں کی نذر ہوگئی۔
اس عرصے میں بھی غزہ میں حماس اور فتح کے درمیان مفاہمت اور مخاصمت کی آنکھ مچولی جاری رہی۔ حماس کو دباؤ میں لانے اور جماعت کے پاؤں تلے سے بساط کھینچنے کی تمام ترکوششیں ناکام ہوگئیں۔
قومی حکومت
سنہ 2006ء کے بعد حماس اور فتح نے قومی حکومت کی تشکیل کی بار بار کوشش کی۔ قومی مفاہمت کے لیے معاہدہ مکہ، معاہدہ قاہرہ، معاہدہ دوحہ اور اعلان ساحل سمیت کئی دوسرے معاہدے بھی ہوئے مگر یہ معاہدے کاغذ کے ایک ٹکڑا ثابت ہوئے۔
سنہ 2014ء کو اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر 51 روز تک تباہ کن جنگ مسلط کی۔ اس جنگ کے بعد فلسطینیوں کو مفاہمت کا ایک اور موقع ہاتھ آیا تھا مگر فلسطینی اتھارٹی کی حیلہ سازیوں اور حماس کو دباؤ میں رکھنے کی سازشوں نے یہ موقع بھی گنوا دیا۔
غزہ پر ٹیکس
فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے غزہ کے عوام کو دباؤ میں رکھنے کے لیے غیرضروری ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا۔ دراصل یہ ٹیکس حماس کو فلسطینی اتھارٹی کے سامنے جھکنے پرمجبور کرنے کی ایک اور کوشش تھی۔
فلسطینی اتھارٹی کے بھاری بھرکم ٹیکسوں کے بوجھ نے غزہ کے عوام کی کمر دوہری کردی۔ رہی سہی کسر صہیونی ریاست کی طرف سےعاید پابندیوں اورمصر کی طرف سے رفح گذرگاہ کی بندش نے نکال دی۔
حال ہی میں غزہ کی پٹی کے ہزاروں سرکاری ملازمین کی روزی روٹی پر فلسطینی اتھارٹی نے ایک اور وار کیا اور چالیس ہزار سے زاید فلسطینی ملازمین کی تنخواہوں میں بہ یک جنبش قلم 30 فی صد کمی کردی گئی۔ اس کمی نے غزہ کے عوام کو مشتعل کردیا مگر اس کے باوجود غزہ کے ملازمین نے حماس کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کے بجائے فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی سیاست کےخلاف احتجاج شروع کردیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حماس کواپنے سامنے جھکنے پرمجبور کرنے کی تمام ترسازشوں کے باوجود حماس کی قیادت اپنے اصولی موقف پرقائم ہے۔