فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں کا موقف ہے کہ دونوں فلسطینیوں فارس حلاوہ اور خالد الاغبر کو نابلس میں گرفتاری کی کوشش کے دوران اس وقت گولیاں لگی تھیں جب انہوں نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی تھی۔ قبل ازیں یہ دونوں نوجوان دو پولیس اہلکاروں کے قتل میں بھی ملوث تھے۔ تاہم دونوں فلسطینی نوجوانوں کے اہل خانہ نے عباس ملیشیا کا الزام مسترد کر دیا ہے۔
عباس ملیشیا کے حملے میں جاں بحق ہونے والے خالد الاغبر کے بھائی فرید الاغبر نے بتایا کہ عباس ملیشیا کے اہلکار جھوٹ بول رہے ہیں۔ دونوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے زندہ گرفتار کیا گیا۔ دونوں میں سے کسی کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا۔ وہ نہتے تھے۔ عباس ملیشیا کا یہ دعویٰ قطعاً بے بنیاد ہے کہ انہوں نے پولیس پر فائرنگ کی ہے۔
فرید نے بتایا کہ عباس ملیشیا کے اہلکار پہلے ان کے گھر میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے خالد کو حراست میں لیا۔ اس کے بعد اس کے ساتھ فارس حلاوہ کو گرفتار کیا اور نامعلوم مقام پر لے گئے۔ کچھ دیر کے بعد ہمیں اطلاع دی گئی کہ خالد اور حلاوہ ایک پولیس مقابلے میں مارے گئے ہیں۔ ان کے لواحقین ان کی میتیں لے جائیں۔
مقتول فلسطینیوں کے اہل خانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس کے زیرکمانڈ سیکیورٹی اہلکار اسرائیلی فوج کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ دونوں فلسطینیوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔ انہوں نے نہ تو فلسطینی پولیس کا کوئی اہلکار قتل کیا تھا اور نہ ہی انہوں نے گرفتاری کے وقت کسی قسم کی مزاحمت کی یا فائرنگ کی تھی۔ عباس ملیشیا الزام سرا سربےبنیاد اور من گھڑت ہے جس کا مقصد مقتولین کو قصور وار قرار دینا اور ان کے قاتلوں کو تحفظ دلانا ہے۔
