عبرانی اخبار’’ہارٹز‘‘ نے اپنی رپورٹ میں بھی اسی سوال کو ایک بار پھر اٹھایا ہے اور ساتھ ہی اس کا جواب دیا ہے کہ ’ہاں صہیونی کابینہ آئندہ اتوار کو حتمی طور پر فیصلہ کرے گی کہ آیا بیت المقدس میں موجود فلسطینیوں کی مساجد بالخصوص مسجد اقصیٰ میں اذان پرپابندی لگائے جائے یا نہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کابینہ کے ارکان کی اکثریت اس مسودہ قانون کی حمایت کے لیے تیار ہیں جس میں بیت المقدس کی مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ یوں غالب امکان یہی ہے کہ صہیونی کابینہ آئندہ اتوار کے روز ہونے والے اجلاس کےدوران اس متنازع قانون کی بھی منظوری دے گی جس کے تحت پولیس کو حکم دیا جائے گا کہ وہ بیت المقدس کی تمام مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پراذان دینے پر پابندی کو یقنی بنائے اور لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے والے موذنین کو حراست میں لے کر ان کے خلاف عدالتی کارروائی عمل لائی جاسکے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت ماضی میں بھی بیت المقدس میں مساجد میں اذان کی ادائی پر پابندی عائد کرتی رہی ہے مگر اب کی بار ’’قانون انسداد شور غل‘‘ کی آڑ میں مساجدمیں اذان پر پابندی کی نئی اور خطرناک سازش تیار کی جا رہی ہے۔
صہیونی ریاست کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ چونکہ بیت المقدس کی مساجد میں بڑے تعداد میں ایک ہی وقت میں اذان کی آواز بلند ہوتی ہے۔ اس لیے اس سے ماحولیات پر منفی اثر پڑنے کے ساتھ ساتھ یہودی آبادی بھی شور شرابے سے متاثر ہوتی ہے۔ یہودیوں کے آرام و سکون میں خلل پڑتا ہے۔