مرکزاطلاعات فلسطین کےمطابق منگل کے روز "یونیسکو” کی جانب سے بیت المقدس میں اسلامی آثار قدیمہ کےتحفظ کے حوالے سے ایک قرارداد منظور کی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بیت المقدس میں اسرائیلی حکومت کی جانب سے جاری کھدائیوں کے ذریعے شہر کی اسلامی آثارقدیمہ کو بری طرح نقصان پہنچ رہا ہے۔ اگرکھدائیوں کا یہ غیرآئینی سلسلہ جاری رہتا ہے تو اس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کے قرب وجوارمیں تمام اسلامی آثار قدیمہ صفحہ ہستی سے مٹنے کا اندیشہ ہے۔
قرارداد میں عالمی ادارے نے اسرائیل سے بیت المقدس میں جاری کھدائیاں اور توڑپھوڑ مکمل طورپر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے بیت المقدس میں جہاں ایک طرف کھدائیوں کی آڑ میں بڑے پیمانے پر فلسطینی تہذیبی علامات کو مٹانے کی کوشش کی ہے وہیں نام نہاد انفراسٹرکچر، سڑکوں، پلوں اور ریلوے لائنوں کے نام پربھی شہر کا نقشہ بدلنے کی کوشش کی ہے۔حال ہی میں اسرائیل نے بیت المقدس میں قائم یہودی کالونیوں کو ایک نئی ٹرین کےذریعے مربوط بنانے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ یہ تمام منصوبے بیت المقدس میں اسلامی آثارقدیمہ کی تباہی کا موجب بن رہے ہیں۔ اس لیے یونیسکو اسرائیل سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بیت المقدس کی اصلی حالت کو قائم رکھنے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ تعاون کرے۔
یونیسکو نے اسرائیل سے اردنی وزارت اوقاف کے ماہرین کے ساتھ تعاون کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یونیسکو کے قانون کے تحت اردنی ماہرین اور بیت المقدس کے مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے اردنی حکام کو بیت المقدس تک رسائی دینا اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین کی رو سے اہم ذمہ داری ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے "یونیسکو” کے بیان پر حکومتی رد عمل بھی جاری کیا ہے۔ عبرانی ٹی وی 7 کی رپورٹ کےمطابق حکومت نے یونیسکوکے بیان پرسخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے "منافقانہ ” اور غیرمنطقی قرارد یا ہے۔
وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر ڈورے گولڈ کاکہنا ہے کہ اسرائیل بیت المقدس میں کسی قسم کی تہذیبی جنگ مسلط نہیں کررہا ہے بلکہ تمام مظاہرکے مقدس مقامات کا تحفظ کررہا ہے۔ یونیسکو کی جانب سے اسرائیل پراسلامی آثارقدیمہ کو مٹانے الزام بھونڈا مذاق، منافقت اور غیر منطقی ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین