القدس مرکز برائے سماجی و اقتصادی حقوق کے تجزیہ کار ‘زیاد حموری ‘نے ”مرکز اطلاعات فلسطین” کو خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ اسرائیل اہالیان القدس کے گرد خوشحال زندگی کی راہیں مسدود کرتا جا رہا ہے۔ چند دہائیوں سے جاری اسرائیلی متعصبانہ اقدامات کے باعث صورتحال اس نہج تک پہنچ گئی ہے کہ آثار قدیمہ سے متعلق اشیاء کی خرید و فروخت کرنے والے تاجر بھی شدید پریشان ہیں۔
ماہر اقتصادیات حموری کے مطابق اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مشرقی القدس کے اقتصادیات کو کمزور کرنے کا سلسلہ ویسے تو اس وقت سے جاری ہے جب اس نے القدس کے اطراف چیک پوسٹیں قائم کر کے اس شہر کو دیگر علاقوں سے کاٹ کر رکھ دیا تھا، شہر کایہ محاصرہ سن 1993میں کھول دیا گیا جس کے بعد اقتصادی حالات کچھ بہتر ہوئے تاہم سن 2002 میں شہر کے اطراف نسلی امیتاز کی مظہر فاصل دیوار تعمیر کر کے ایک مرتبہ پھر شہر غربت کے اندھیرو ں میں دھکیل دیا گیا۔ شہر یوں کی قوت خرید انتہائی محدود ہو گئی ہے جس کا اثر صرف سیاحت پرہی نہیںبلکہ ہر شعبے پر ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ شہر کے اصل مالک فلسطینی ہجرت کرنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔
دو سال قبل کے اعداد و شمار کے مطابق القدس کی اولڈ میونسپلٹی میں اڑھائی سو کاروباری مراکز بند ہونے سے اولڈ میونسپلٹی کا ایک چوتھائی کاروبار ختم ہو چکا تھا۔ قدیم القدس کا تمام انفراسٹرکچر تباہ کر دیا گیا ہے، القدس کے تجارتی شعبے پر روشنی ڈالتے ہوئے حموری نے بتایاکہ فلسطینی تاجروں کے ستر فیصد کو ”ارنونا” اور دیگر ٹیکسوں کی مد میں بڑی رقم اسرائیلی حکومت کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ اسرائیل فلسطینی تاجروں کو دباؤ میں لانے کے لیے ٹیکسوں کی شرح اور جرمانوں میں مسلسل اضافہ کیے جا رہا ہے۔ تاجروں پر مختلف مالی جرمانے عائد کرنے کا مقصد انہیں القدس چھوڑنے پر مجبور کرنا ہے۔
اقتصادی اعداد وشمار دیکھ کر کوئی بھی تاجر اس شہر میں تجارت کے لیے ویسے ہی راضی نہیں ہو مستزاد یہ کہ یہاں کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے اسرائیل سے اجازت کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ القدس کی معیشت میں فلسطینی سرمایہ کاروں کا حصہ کم ہو کر نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔
فلسطینی ماہر اقتصادیات نے متنبہ کیا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کا ”پرامن اقتصادیات” پروگرام پرعمل اس وقت تک ناممکن ہے جب تک اسرائیل القدس میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر اوسلو معاہدے کے بعد القدس کی اقتصادی صورتحال میں قدرے بہتری آئی، لیکن سن 2000 ء میں اسرائیلی حملوں میں القدس کے تمام سکیورٹی ہیڈکوارٹرز،غزہ ائیر پورٹ اور سارا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا گیا، جس کے بعد یہاں ساری کاروباری سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئیں، حموری نے واضح کیا کہ فلسطین کی اصل اقتصادیات کی چابی اسرائیل کے ہاتھ وہ جب چاہے اس میں تیزی لے آئے اور جب چاہے اسے رو بہ زوال کر دے۔
فلسطینی تجزیہ کار نے بتایا کہ اہالیان القد س گزشتہ چالیس سال سے اسرائیل کے انتہائی خوفناک منصوبوں کا سامنا کر رہے ہیں ، انکے لیے القدس میں کاروبار اور تجارت کے مواقع انتہائی محدود ہو چکے ہیں۔ مشرقی القدس کو ملنے والی وصولیاں شہر میں اسرائیلی منصوبوں بالخصوص یہودی بستیوں کو ملنے والے فنڈز کے مقابلے میں انتہائی ناکافی ہوتے ہیں، ایک جانب القدس میں بسنے والے یہودیوں پر کروڑوں بہائے جا رہے ہیں تو دوسری جانب القدس کے اصل شہریوں کی اقتصادیات قرضوں کے بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے۔ ایک فلسطینی کے لیے اپنے گھر والوں کو خورا ک ودیگر ضروریات زندگی فراہم کرنا بھی انتہائی دشوار ہو گیا ہے۔
”مقبوضہ بیت المقدس کے حالات انتہائی کٹھن ہیں جبکہ کوئی بھی ایسا نہیں جو اس شہر اور اس کے باسیوں کی مدد کے لیے سیاسی فیصلہ کر سکے۔ بدترین مالی بحران کے باوجود بے مثال ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنیوالے اہالیان القدس کی فی الفور مدد کرنا انتہائی ضروری ہو چکا ہے” فلسطینی ماہر امور اقتصادیات نے مزید بتایا۔
فلسطینی رہنما نے امید ظاہر کی کہ اسرائیل کی جانب سے القدس اور اس کے شہریوں کو اپنی اصل شناخت سے محروم کرنے کے لیے جاری کارروائیوں اور اقدامات کے خلاف اہالیان القدس کی ثابت قدمی برقرار رہے گی تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ شہر کی ابتر اقتصادی صورتحال شہریوں کی برداشت سے زیادہ خوفناک ہے۔