مقبوضہ بیت المقدس – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس شہر میں قائم اسرائیل کی ایک مجسٹریٹ عدالت نے مسجد اقصیٰ (قبلہ اوّل) میں یہودیوں کو تلمودی تعلیمات کے مطابق نماز ادا کرنے اور دیگر عبادات کی ادائیگی کی مکمل اجازت دے دی ہے جس کے بعد یہودیوں کے لیے قبلہ اوّل میں داخل ہونے کی مزید راہ ہموار ہوگئی ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق منگل کے روز اسرائیل کی مجسٹریٹ عدالت نے ایک فیصلے میں کہا کہ مسجد اقصیٰ یہودیوں کا مقدس مذہبی مقام ہے جہاں یہودیوں کو اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق عبادت کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کویہ حق حاصل نہیں کہ وہ یہودیوں کو جبل ہیکل کے اندر داخل ہونے یا اس کے اوپر چڑھنے سے روک سکے۔نیوز ویبپورٹل ’عرب 48‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی عدالت نے مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کا مقدس ترین مقام قرار دیا ہے۔
دوسری جانب فلسطین کے مذہبی حلقوں کی طرف سے اسرائیلی عدالت کے فیصلے پر شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔
فلسطینی وزیر اوقاف ومذہبی امور الشیخ یوسف ادعیس نے ایک بیان میں اسرائیل کی مجسٹریٹ عدالت کے فیصلے کو احمقانہ اور مذاہب کے درمیان جنگ چھیڑنے کی راہ ہموار کرنے کی سازش قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی عدالت کا یہودیوں کو قبلہ اوّل میں عبادت کا حق دینے کا فیصلہ صہیونی ریاست کی روز مرہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کے خلاف جاری خلاف ورزیوں کی ایک نئی کڑی ہے۔ اسرائیلی ریاست اور اس کے اداروں کی سرپرستی میں صہیونی شرپسند روز مرہ کی بنیاد پر قبلہ اوّل پر دھاوے بولتے اور مقدس مقام کی بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
الشیخ ادعیس نے مسجد اقصیٰ میں یہودیوں کو عبادت کا حق دینے کے فیصلے کو انتہائی خطرناک قرار دیا اور کہا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں مذاہب کے درمیان ایک نئی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست قبلہ اوّل پر اپنا غاصبانہ قبضہ مستحکم کرنے کے لیے کبھی پارلیمنٹ سے قانون سازی کا سہارا لیتی ہے اور کبھی عدالتوں اور ریاست کے دوسرے اداروں کو استعمال کرکے فلسطینیوں کے مذہبی، قومی اور اور ثقافتی تشخص کو پامال کیا جاتا ہے۔