مرکزاطلاعات فلسطین یکے مطابق اسرائیل کی سپریم کورٹ کی جانب سے جاری فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ مال متروکہ قانون پرعمل درآمد صرف حکومت کی اجازت سے ہوگا یا کابینہ کی خصوصی کمیٹی کی ہدایت پر کسی بھی فلسطینی کی متروکہ جائیداد کو بحق سرکار ضبط کیا جائے گا۔
تفصیلات کےمطابق اسرائیلی عدالت نے صہیونی فلسطینیوں کی متروکہ املاک کے استعمال سے متعلق فیصلہ فلسطینیوں کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت پرکیا ہے۔ فلسطینی شہریوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے بیت المقدس اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی متروکہ املاک اور جائیدادوں کو اسرائیل کی سرکاری تحویل میں دیے جانے سے روکنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم صہیونی حکومت نے درخواستوں میں اختیار کردہ موقف کو مسترد کردیا اور کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت کو فلسطینیوں کی متروکہ جائیدادوں کو تحویل میں لینے کا حق حاصل ہے۔
اسرائیلی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بیت المقدس اور مقبوضہ مغربی کنارے میں ان ہزاروں فلسطینی خاندانوں کی متروکہ املاک اور جائیدادوں پراسرائیل کو قبضے کا جواز مل گیا ہے جو صہیونی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں یا تو فلسطین سے بے دخل ہوچکے ہیں یا فلسطین کے اندر دوسرے شہروں میں پناہ گزین کے طورپر کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے فلسطینی شہریوں کی املاک پرقبضے کے لیے’’متروکہ املاک قانون‘‘ کئی سال قبل منظور کیا تھا۔ اس قانون کی رو سے سنہ 1948 ء میں قیام اسرائیل کے وقت اور اس کے بعد اپنے گھر بار، جائیدادیں اور زمینیں چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں نقل مکانی پر مجبور ہونے والے فلسطینیوں کی املاک پر قبضے کا اسرائیلی حکومت کو حق دیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسرائیلی عدالت نے اس قانون پرعمل درآمد معطل کردیا تھا تاہم گذشتہ روز عدالتی فیصلے میں اسرائیلی حکومت کو فلسطینیوں کی املاک پر ڈاکہ زنی کا حق دے دیا گیا۔
اس قانون کی عدالت سے منظوری کے بعد اب کوئی فلسطینی اپنی جائیدادوں کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی فلسطینی خاندان دوبارہ ان جائیدادوں کو استعمال میں لا سکتا ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین