اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم برائے سائنس ثقافت اور تعلیم نے فلسطینی شہر غزہ کی پٹی میں قائم اسلامی یونیورسٹی کو تنظیم میں ایک نشست دی ہے،
جس پر فلسطین بھرمیں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ دوسری جانب صہیونی حکومت نے اسلامی یونیورسٹی کو "یونیسکو” میں رکنیت ملنے پر سخت صدمے کا اظہار کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق "یونیسکو” نے فلسطین کی سب سے بڑی علمی درسگاہ جامعہ اسلامیہ کو اپنی رکنیت دے کر اسے دنیا کی بہترین جامعات میں شمار کرنے اسے عالمی اعزاز سے نوازا ہے، جبکہ اسلامی یونیورسٹی کے اس اعزاز کو اسرائیل ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر پا رہا ہے۔
اسرائیلی اخبار”ہارٹز” نے اپنی ویب سائیٹ پر ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ "یونیسکو” کی جانب سے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی کو اپنے ہاں نشست دینے کے فیصلے پر اسرائیل نے غور شروع کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت نونیسکو کے اس اقدام کو غلط سمجھتی ہے۔ اس سلسلے میں اسرائیل جلد ہی یونیسکو کی انتظامیہ کو اپنے موقف سے آگاہ کرے گی۔
اخبار لکھتا ہے کہ یونیسکو کی ڈائریکٹر ایرنیا نوکویا کا اسلامی یونیورسٹی کو اپنے ہاں نشست دینا اسرائیل کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اس اقدام سے اسرائیل اور یونیسکو میں پانے جانے والے اختلافات مزید گہرے ہوں گے۔ کیونکہ اسرائیل پہلے ہی فلسطینی ریاست کو مستقل رکن کا درجہ دینے پر اپنے غم وغصے کا اظہار کر چکا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ فلسطین کی بڑی درسگاہ اسلامی یونیورسٹی اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” جیسے شدت پسند لوگوں کے حامیوں کا مرکز ہے۔ ایسے میں اسرائیل سے مشاورت کے بغیر کسی فلسطینی یونیورسٹی کو یونیسکو کی نشت فراہم کرنا حماس جیسی اسرائیل دشمن قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔
ادھر اسرائیلی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں یونیسکو میں فلسطینی یونیورسٹی کو نشست ملنے کی شدید مذمت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اسلامی یونیورسٹی کو یونیسکو کی رکنیت دینے کی تمام تر ذمہ داری تنطیم کی ڈائریکٹر ارینا پرعائد ہوتی ہے۔ صہیونی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یونیسکو کو آنکھیں بند کرکے کسی بھی فلسطینی درسگاہ کو اپنی رکنیت نہیں دینی چاہیے۔ اسلامی یونیورسٹی کو نشست فراہم کرنے کے باب میں یونیسکو نے جو طرز عمل اختیار کیا ہے وہ غیر منصفانہ ہے۔ کیونکہ یونیسکو نے رکنیت دینے سے قبل فلسطینی یونیورسٹی کی سرگرمیوں پر کسی قسم کی کوئی تحقیق نہیں کی ہے، اگر اقوام متحدہ کی تنظیم اسلامی یونیورسٹی کی سرگرمیوں کا جائزہ لیتی تو اسے کسی صورت میں اپنے ہاں رکنیت نہ دیتی۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین