مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہودی آباد کاروں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اہک طرف ان کا جلوس قدیم بیت المقدس کی گلیوں سے گذر رہا تھا اور دوسری جانب مسجد اقصیٰ کے باب العامود میں تل دھرنے کو جگہ نہیںتھی۔ یہودی شرپسندوں نے مارچ کے دوران فلسطینی اور عرب مردہ باد کے نعرے لگائے اور فلسطینیوںکے خلاف نہایت نازیبا الفاظ کا استعمال کیا گیا۔
یہودی آباد کاروں کی آمد سے قبل فلسطینی شہریوںکی بڑی تعداد بھی مسجد اقصیٰ اور باب العامود کے قریب جمع ہوئی مگر وہاں پر تعینات اسرائیلی فوج اور پولیس نے فلسطینیوں کو وہاں سے نکال دیا۔ یہودی ریلی شروع ہونے سے قبل ہی بیت المقدس کے تمام داخلی اور خارجی راستے بند کردیے گئے تھے۔ فلسطینیوں کو گھروں میںمحصور کردیا گیا تھا اور ان کی دکانیںبند کردی گئی تھیں۔ اس کے باوجود بعض مقامات پر فلسطینیوں نے دکانیں کھلی رکھیں۔
یہودی آباد کاروں اور فلسطینی شہریوں کے درمیان کئی مقامات پر پرتشدد جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں کم سے کم 20 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ یہودی آباد کاروی کے جلوس کی راہ میںآنے والے چھ فلسطینیوںکو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ یہودی آباد کاروںاور قابض پولیس نے تشدد کا استعمال کرتے ہوئے درجنوں فلسطینیوں کو زخمی کیا۔ مسجد اقصیٰ اور اس کے آس پاس کے علاقوں کو فوجی چھائونی میں تبدیل کردیا گیا تھا جہاںفلسطینیوںکو قبلہ اول میںنماز کی ادائیگی کی اجازت تک نہیں تھی۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین