اردنی سپریم کمیٹی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صہیونی ریاست کا جزیرہ نما النقب کے پانی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا اپنے اندر سنگین مضمرات رکھتا ہے۔ اسرائیل بحر احمر اور بحرمردار کے پانی کو جزیرہ نقب میں ذخیرہ کرنا چاہتا ہے جہاں کی عرب آبادی کو جبری علاقہ بدری کا سامنا ہے۔ قابض صہیونی حکومت مقامی عرب آبادی کے مکانات مسمار کرکے انہیں وہاں سےنکل جانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ فلسطینیوں کوجبری نکالنے کے لیے "پراور” اسکیم کے ذریعے دباؤ ڈال کریہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے صہیونی پارلیمنٹ بھی شامل ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کی جزیرہ نما النقب کو خالی کیے جانے کے بعد اسرائیل وہاں پر جوہری سرگرمیاں شروع کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ جو اپنے اندر کئی خطرات سموئے ہوئے ہیں۔ صحرائے نقب میں پانی کا وافرذخیرہ جمع کرنا اور جوہری سرگرمیاں اردن کے اندرونی معاملات میں اسرائیل کی براہ راست مداخلت کا باعث بنے گا۔
اردنی تنظیم کا کہنا ہے کہ عمان نے بحر احمر اور بحر مردار کےپانی کو ایک نہر کے ذریعے باہم مربوط کرنے کی اسکیم میں اسرائیل کو شامل کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اس اسکیم کے ذریعے اسرائیل کو پانی کا غیرضروری حق دیا گیا ہے اور صرف صہیونی مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ مہینے واشنگٹن میں عالمی بنک کے ہیڈ کواٹر میں میں اردن، فلسطین اور اسرائیل کا ایک مشترکہ اجلاس ہواجس میں بحراحمر اور بحر مردار کو ایک پانی کی نہرکے ذریعے مربوط بنانے کا معاہدہ طے پایا تھا۔ اس نہر سے تینوں ممالک مستفید ہوں گے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے اردن اور فلسطین دونوں کے اقتصادی شعبے بری طرح متاثر ہوں گے جبکہ اسرائیل کو اس معاہدے کا اقتصادی اور عسکری شعبے میں فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
اردنی انسانی حقوق کمیٹی نے اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے پرفضاء مقام وادی اردن کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کے فیصلے کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ وادی اردن کو اسرائیل میں ضم کیے جانے کے بعد فلسطینی ریاست کے وجود کی بات ہوا میں باتیں کرنے کے مترادف ہے۔ تنظیم نے اردنی حکومت کے اسرائیل نواز موقف کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین