فلسطینیوں کی بڑی اکثریت کا خیال ہے کہ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل صہیونیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پرامن زندگی کی ضمانت فراہم نہیں کرتا جبکہ دوسری جانب ان کی بھاری اکثریت مسلح جدوجہد کو فلسطینی ریاست کے قیام کا بہتر آپشن سمجھتی ہے۔
"مسلح مزاحمت” بہترین آپشن
اس امر کا انکشاف امریکی اور عالمی رائے عامہ کے رحجانات سے متعلق رائے عامہ سروے منعقد کرنے والے امریکی تھنک ٹینک ‘پیو’ کے زیر اہتمام ہونے والے حالیہ سروے میں کیا گیا ہے۔
‘پیو’ کے مطابق غزہ کی پٹی اورمغربی کنارے میں رہائش پذیر جن فلسطینیوں سے سروے کیا گیا ان کی اکثریت[61 فیصد] سمجھتی ہے کہ فلسطینی ریاست اور اسرائیل کے درمیان پرامن بقائے باہمی کسی طور ممکن نظر نہیں آتی۔ سروے سیمپل میں چودہ فیصد فلسطینی سمجھتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے۔
قیام اسرائیل [النکبہ] کے 65 برس مکمل ہونے پر جاری ہونے والے ‘پیو’ سروے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں رہنے والے 45 فیصد شہری مسلح جدوجہد کو فلسطینی ریاست کے قیام کا سب سے بہتر ذریعہ سمجھتے ہیں جبکہ دوسری جانب صرف پندرہ فلسطینی ایسے ہیں کہ جو مسلح جدوجہد کو اپنے مقاصد کے حصول کا مثالی آپشن خیال نہیں کرتے۔
سروے میں مذاکرات کو فلسطینی ریاست کے قیام کا سب سے بہترین راستہ سمجھنے والوں کی تعداد سیمپل فلسطینیوں کے پندرہ فیصد سے زیادہ نہیں تھی جبکہ جن لوگوں سے سروے میں سوال پوچھا گیا، ان کا بائیس فیصد ایسے ہیں کہ جو مسلح جدوجہد اور مذاکرات دونوں کو فلسطینی ریاست کے قیام کا مثالی آپشن خیال کرتے ہیں۔ سروے سیمپل میں فلسطین کے شہروں، دیہات اور مغربی کنارے کی خیمہ بستیوں میں مقیم فلسطینیوں سے رائے لی گئی ہے۔
یہاں اس امر کی جانب اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ فلسطینی شہروں، دیہات اور غرب اردن میں فلسطینی مہاجرین کیمپوں میں ‘پیو’ کے رائے عامہ سروے کے نتائج مقبوضہ مشرقی بیت المقدس کے القدس میڈیا اینڈ کیمونیکشن سینٹر کے دو ماہ قبل ہونے والے سروے نتائج سے قطعی مختلف ہیں۔ القدس میڈیا سینٹر کے زیر اہتمام ہونے والے سروے میں صرف ایک چوتھائی سیمپل ووٹروں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مسلح جدوجہد کی حمایت کی تھی جبکہ 38.6 فیصد فلسطینیوں نے مذاکرات کے ذریعے مقاصد کے حصول کی حمایت کی تھی۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین