فلسطین کی مختلف مذہبی، سیاسی اور عسکری تنظیموں نے صدر محمود عباس کی جانب سے اسرائیل سے مذاکرات کے دوبارہ اعلان کو مسترد کردیا ہے۔
فلسطینی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ محمود عباس کا اسرائیل سے مذاکرات کی بحالی کا اعلان قوم کے بنیادی حقوق، مطالبات اور شہداء کے خون کے ساتھ غداری ہے۔
خیال رہے کہ اتوار کو صدر محمود عباس نے اسرائیل کے سرکاری ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ صہیونی ریاست کے لیے بات چیت شروع کرنے اور دوستی کے لیے تیار ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ اگر انہیں قیام امن کے لیے مختلف آپشن دیے جائیں تو وہ پہلے، دوسرے اور تیسرے آپشن کے لیے بھی پرامن بات چیت اور مذاکرات ہی کو ترجیح دیں گے۔ کیونکہ ان کے نزدیک تمام مسائل کا بہترین حل مذاکرات ہی میں مضمرہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صدر محمود عباس نے صہیونی ٹی وی کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے اور نائب وزیراعظم شاؤل موفاز کے درمیان رام اللہ میں گذشتہ ہفتے طے پانے والی ملاقات منسوخ نہیں بلکہ موخر ہوئی ہے۔ ملاقات کے لیے نئی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ فریقین میں بات چیت کے لیے مناسب مواقع کی ضرورت ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں فلسطین میں مسلح تحریک شروع کرنے کی حمایت نہیں کریں گے۔ صدر محمودعباس کاکہنا تھا کہ حماس سمیت فلسطین کی تمام جماعتیں اپنے حقوق کے لیے عوامی اور پرامن تحریک چلانے کے حامی ہیں۔
فلسطینی جماعتوں کا رد عمل
دوسری جانب فلسطینی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے صدر محمود عباس کے صہیونی ریاست کے ساتھ مذاکرات کے تصور کو مسترد کردیا ہے۔ اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے ترجمان سامی ابو زھری نے کہا کہ اسرائیلی ٹی وی کو محمود عباس کا انٹرویو باعث افسوس ہے۔ صدر محمود عباس اور ان کا گروپ ماضی میں بھی صہیونی ریاست کے ساتھ مسئلہ فلسطین کی تصفیے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان کوششوں کا بھی کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔ وہ ایک ایسی مشق کو دوبارہ کر رہے ہیں جس کا فائدہ صرف دشمن کو ہوگا۔ اسرائیل امن مذاکرات کی عملا نفی کررہا ہے اور فلسطینی اتھارٹی مسلسل صہیونی ریاست کے ساتھ بات چیت کی رٹ لگائے ہوئے ہے جو نہایت شرمناک ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حماس کے ترجمان نے کہا کہ صدر محمود عباس کی طرف سے صہیونی نائب وزیراعظم شاؤل موفاز کی رام اللہ آمد پر اصرار افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے۔ فلسطینی عوام نے نائب صہیونی وزیراعظم کے دورہ رام اللہ کےخلاف احتجاج کرکے قوم کی جانب سے اپنا موقف واضح کردیا ہے۔ جبکہ رام اللہ اتھارٹی کی پولیس نے بھی مظاہرین پر طاقت کا بہیمانہ استعمال کرکے ثابت کیا ہے کہ اس کے نزدیک صہیونی ریاست کے مفادات زیادہ عزیز ہیں۔
ڈاکٹر سامی ابو زھری کا کہنا تھا کہ صدر محمود عباس کا یہ کہنا کہ حماس بھی صہیونی ریاست کےخلاف پرامن تحریک چلانے کی خواہش مند ہے، قطعی غلط اور بے بنیاد ہے۔ حماس اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ فلسطینیوں کے حقوق طاقت کےذریعے چھینے گئےہیں اور طاقت ہی کے استعمال سے وہ دوبارہ واپس مل سکتے ہیں۔
ادھر فلسطین کی ایک دوسری بڑی مذہبی اور سیاسی جماعت اسلامی جہاد نے بھی صدر محمود عباس کے صہیونی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو کو مسترد کردیا ہے۔ اسلامی جہاد کے رہ نما خضر حبیب کا کہنا ہے کہ محمود عباس اسرائیل کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کا اعلان کرکے قوم سے غداری کر رہے ہیں۔ صہیونی دشمن طاقت کے وحشیانہ استعمال سے ہمارے بچوں ، عورتوں اور بے گناہ شہریوں کو شہید کر رہا ہے اور در محمود عباس شہداء کے خون کے ساتھ غداری کررہے ہیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین