(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) رواں سال میں مزاحمت کاروں کے حملوں میں تاحال اسرائیلی فوجیوں اور اعلیٰ افسروں سمیت 25 اسرائیلی قتل کئے جاچکے ہیں۔
غیر قانونی صہیونی ریاست اسرائیل کے مجموعی امور پر نظر رکھنے والے ماہر عصمت منصور نے اپنے حالیہ تجزیئے میں کہا ہے کہ ہفتے کے روز مزاحمت کار محمد کامل الجبعری کی جانب سے اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ ) کے انتخابات سے محض تین روز پہلے کیا جانے والا حملہ اپنے وقت مقام اور اہمیت کے اعتبار سے بہت تباہ کن ثابت ہورہا ہے جس کا اظہار اسرائیلی سیاسی قیادت بھی کررہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
اریحا: فلسطینی مجاہد کا حملہ، پانچ صہیونی فوجی زخمی
انھوں نے کہا کہ گذشتہ روز اسرائیلی وزیر دفاع کی جانب سے حملے کو تیسرے انتفاضہ سے تشبیہ نہ دینا اس بات کا اقرار ہے کہ وہ بری طرح بوکھلائے ہوئے ہیں، اسرائیلی قیادت مزاحمت کاروں کے حملوں سے بے حد پریشان ہے اور ان کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ "میرے خیال میں الخلیل آپریشن قابض دشمن کے انتخابات سے تین دن قبل اپنے وقت کے لحاظ سے ایک غیر معمولی ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت تکلیف دہ آپریشن تھا جس کا براہ راست اسرائیل کے انتخابات اور ان کے نتائج پر اثر پڑے گا، خاص طور پر چونکہ اس کا محل وقوع الخلیل شہر ہے جب کہ شمالی مغربی کنارے کے علاقے بالخصوص نابلس کا علاقہ پہلے ہی اسرائیلی محاصرے میں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے اس مفروضے کو تقویت ملتی ہے کہ مزاحمتی واقعات بڑھ رہے ہیں اور مغربی کنارے نے مزاحمت کو بھڑکاتے ہیں۔ مزاحمت کے بڑھنے کو روکنا اب ممکن نہیں رہا اور یہ ناقابل واپسی نقطہ پر پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک موثراور تکلیف دہ عمل ہے۔ وقت اور جگہ کے لحاظ سے اس کی بڑی اہمیت ہے۔متوقع منظر نامے کے بارے میں منصور نے کہا کہ "میں سمجھتا ہوں کہ اب منظر نامہ قابض دشمن کی جارحیت میں اضافے کی شکل میں دیکھیں گے۔