(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) رمضان المبارک کی آمد ہو چکی۔ رحمتیں سایہ فگن ہیں۔ مگر غزہ میں اسرائیلی جنگ کا چھٹا ماہ جاری ہے اور بدترین جنگ کے 160 دن گزر چکے ہیں۔ پورا غزہ مسلسل اسرائیلی بمباری نے ملبے کا ڈھیر بنا رکھا ہے۔ بس اکا دکا گھر بچے ہیں۔ وہ بھی بے چراغ۔ ہر طرف تباہی کی خاک، درو بام کی راکھ اور بارودی دھوئیں کا راج ہے۔
اب تک 31272 فلسطینی جان سے جا چکے ہیں جن میں دو تہائی تعداد میں فلسطینی خواتین اور بچے شامل ہیں۔
اسرائیل کو مغربی دنیا میں ہونے والے مظاہروں کی پروا ہے نہ 57 رکنی او آئی سی نام کی تنظیم کا خوف۔ وہ پوری طرح دولت و ثروت اور قوت و سلطنت کے حاملین سے بےنیازی دکھا رہا ہے۔ اسی سبب رمضان المبارک کے دوران بھی اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کرنے سے انکار اور رفح پر جنگی یلغار کا ایک بار پھر اعلان کر دیا۔ صرف یہی نہیں غزہ کے 23 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کے لیے رمضان المبارک میں بھی خوراک اور ادویہ تک کی فراہمی میں حائل بے رحمانہ رکاوٹوں کو ہٹانے تک کا عندیہ نہیں دیا۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منگل کے روز اس حد تک کہہ کر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی کہ ’غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے،‘ مگر تاحال سلامتی کونسل کے ضمیر کی نیند پوری طرح سلامت ہے۔
تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ اس بار رمضان المبارک میں یوم القدس کے موقعے پر غزہ کی یاد بطور خاص منائے جانے کی تیاریاں عوامی سطح پر شروع ہو چکی ہیں جبکہ فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان نے پورے رمضان کو ’ماہ فلسطین‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ ’سیو غزہ‘ نامی تنظیم سمیت کئی دوسرے گروپ اسے ’رمضان الاقصیٰ‘ کے نام سے یاد رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نہ صرف یہ کہ غزہ میں اسرائیل اشیائے خور و نوش کی ترسیل رمضان المبارک میں بھی روکے رکھے گا بلکہ فلسطینیوں کو سحر وافطار اور صلوٰۃ و تراویح کے دوران کسی بھی وقت بمباری کا خطرہ رہے گا۔ اسی طرح اسرائیلی میزائل اور ڈرون حملوں کے ساتھ ساتھ ٹینکوں سے گولہ باری اور سنائپرز کا استعمال بھی جاری رہے گا۔ واضح طور پر اسرائیل کا اعلان ہے ’کر لو جو کرنا ہے، میں اسرائیل ہوں! جو چاہوں گا کروں گا۔‘
اس بہیمانہ طرزِ ریاست نے پورے خطے ہی نہیں عرب و عجم میں پھیلے دنیائے اسلام کو ایک سانپ کی طرح سونگھ کر چھوڑ دیا ہے۔
بات غزہ میں ملبے کے ڈھیر اور بچے کچھے چند بےچراغ گھروں کی ہو رہی تھی۔ یہ درمیان میں ’راکھ کے پرانے چلے آ رہے ڈھیر‘ کا ذکر آ گیا۔ واپس اسی بےچراغ اور تاراج غزہ کی گلیوں کی طرف چلتے ہیں جہاں موت و حیات کی کشمکش جاری ہے، مگر اہل غزہ نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ ہر قیمت اور ہر صورت زندہ رہیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ چھٹے ماہ میں داخل اسرائیلی جنگ ان کے عزم کو کمزور کر سکی ہے نہ امید کو مایوسی میں بدل سکی ہے۔
اس عزم اور امید کا تازہ اظہار رمضان المبارک کی آمد کے موقعے پر دیکھنے میں آیا ہے۔ اگرچہ غزہ اور اس سے جڑے فلسطینی علاقوں، مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس بشمول مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی جبر کے سائے گہرے اور سنگین پہرے ہیں، اس کے باوجود غزہ میں گھروں کے ملبے پر بھی اہل غزہ نے علامتی طور پر ہی سہی رمضان المبارک کا استقبال کیا ہے۔
روایتی انداز میں غزہ کے فلسطینیوں نے رمضان کی آمد پر اپنے اپنے گھروں کے ملبے کے ڈھیروں پر بھی سجاوٹی جھنڈیاں لگائی ہیں اور چراغاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلاشبہ یہ جھنڈیاں اور یہ چراغاں وسیع پیمانے پر نہیں مگر یہ ان کی اللّٰہ کی رحمت و نصرت اور برکت سے امید کا غیر معمولی اظہار ضرور ہے۔
ایک ایسا اظہار جس سے صاف لگ رہا ہے کہ جس طرح فلسطینی روایتی طور پر اپنی اگلی نسلوں کو اپنے ’حق وطن واپسی‘ کی علامت کے طور پر ’کنجیاں‘ منتقل کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس رمضان المبارک کی آمد کے موقعے پر بھی اپنی پرجوشی کا حتی المقدور اور روایتی اظہار کر کے انہوں نے اپنی اگلی نسلوں کو رحمتِ خداوندی سے جڑے رہنے کا سبق اور بےرحم دنیا کو پیغام دیا ہے، ’مایوس نہیں، پُرامید اور پرعزم ہیں ہم۔‘
غزہ کے فلسطینی بدترین جنگ میں اپنے بہت سے پیاروں کو کھو چکے ہیں۔ چھتوں سے محروم ہو کر بے گھر ہو چکے ہیں۔ حتیٰ کہ کھانے پینے کی بنیادی نوعیت کی اشیا تک سے بھی محروم کر دیے گئے ہیں۔ بزبان حال کہہ رہے ہیں کہ امید اور حوصلے کا دامن چھوڑ دینا ان کا شعار نہیں ہے۔
ان فلسطینیوں کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ عالم اسلام کے قبلہ اول کے امین اور متولی ہونے کے ناطے وہ مسجد اقصیٰ کے لیے بھی تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی جاں سپاری کا بلا کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ آج بھی ارضِ فلسطین کو معراج و اسریٰ کی سرزمین کے طور پر عقیدت و محبت سے دیکھتے ہیں، اس لیے اس کے تحفظ اور مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے اپنی زندگیوں کی ہی نہیں بچوں کی جانیں تک قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
مسجد اقصیٰ کے گرد لگے اسرائیلی فوجی پہروں کو بار بار توڑتے ہیں۔ خصوصاً رمضان المبارک میں یہاں جوق در جوق پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ خود آتے ہیں بلکہ اپنے اہل خانہ کو ساتھ لاتے ہیں۔ فلسطینی خواتین اس سلسلے میں مردوں سے کسی بھی طرح پیچھے رہنے والی نہیں ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے غزہ کی چھٹے ماہ میں داخل اسرائیلی جنگ میں ہزاروں کی تعداد میں جانیں پیش کر کے بھی ثابت کیا ہے۔
یہ فلسطینی خواتین ’المرابطات‘ کی صورت رمضان المبارک میں مسجد اقصیٰ آ کر تلاوت و نوافل کا اہتمام کرتی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ افطاری کے اوقات میں حرم اقصیٰ میں موجود نمازیوں کے لیے سامان افطار کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔