فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق فلسطینی محکمہ امور اسیران کے عہدیدارعبدالناصر فروانہ نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ گذشتہ برس یکم اکتوبر کے بعد سے شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ القدس کے دوران کم سے کم 2320 فلسطینی گرفتار کیے گئے اور انہیں حراستی مراکز میں اذیتیں دی گئیں۔
ناصر فروانہ نے رام اللہ میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران رپورٹ پیش کی، جس میں بتایا گیا کہ تحریک انتاضہ کو دبانے کے لیے صہیونی فوج نے فلسطینی بچوں کی اندھا دھند گرفتاریاں کی گئیں۔ گرفتار کیے گئے بچوں میں سے بعض کی عمریں 11 سال تھیں۔ اس وقت بھی 11 سے 18 سال کے 400 بچے صہیونی عقوبت خانوں میں پابند سلاسل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2011ء کے بعد فلسطینی بچوں کی گرفتاریوں میں گذشتہ برس اس وقت غیرمعمولی اضافہ ہوا جب فلسطینی شہریوں نے قبلہ اوّل کے دفاع اور القدس کے تحفظ کے لیے ’تحریک انتفاضہ القدس‘ کا آغاز کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی شہریوں کو گرفتار کرنے اور انہیں جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا اصل مقصد تحریک انتفاضہ کو کچلنا تھا۔ دوران حراست فلسطینی بچوں کو شرمناک نوعیت کے وحشیانہ سلوک کو سامنا کرنا پڑا۔ انہیں جسمانی اور نفسیاتی اذیتیں دی گئیں اور یہ بھیانک سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک جانب اسرائیلی فوج نے بڑی تعداد میں فلسطینی بچوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا اور دوری جانب اسرائیلی پارلیمنٹ اور عدلیہ نے فلسطینی بچوں کے خلاف نسل پرستانہ قوانین وضع کرنے اور ان کے نفاذ کی سازشیں بھی تیز کر دیں۔
خیال رہے کہ اس وقت اسرائیل کی جیلوں میں 7 ہزار سے زائد فلسطینی پابند سلاسل ہیں۔ ان فلسطینیوں کو 25 حراستی مراکز میں ڈالا گیا ہے۔ ان میں سے 1500 اسیران کو متعدد نوعیت کے جان لیوا امراض کا سامنا ہے۔ 750 فلسطینی انتظامی حراست کے تحت پابند سلاسل ہیں۔ محروسین میں 400 بچے اور 70 خواتین ہیں۔ ان میں 40 اسیران 20 سال سے زائد عرصہ اسرائیلی جیلوں میں قید کاٹ چکے ہیں۔