قابض اسرائیل نے فلسطینی شہر غزہ کی پٹی کے لیے امدادی سامان لے کر آنے والے یرغمال بنائے گئے ایرانی بحری جہاز کو کل ہفتے کے روز "ایلات” بندرگاہ پر پہنچا دیا ہے۔
اسرائیلی بحریہ نے گذشتہ بُدھ کو بحیرہ احمر میں فلسطینی محصور شہر غزہ کی طرف سفر کرنے والے اس جہاز کو روکا تھا۔ اسرائیل نے بحری جہاز کے سامان کی تلاشی کے دوران راکٹ لانچر اور دیگر اسلحہ ملنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم ایران نے یہ دعویٰ من گھڑت قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔
جمعرات کو قابض اسرائیلی بحریہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ ”اس جہاز کی آمد کے بعد اس کو چیک کیا جائے گا اور یہ دیکھا جائے گا کہ آیا اس پر کوئی اور اسلحہ تو لدا ہوا نہیں ہے”۔ اسرائیل نے بدھ کو اری ٹیریا اور سوڈان کے درمیان بحر احمر میں ”کلوس سی” نامی اس جہاز کو زبردستی روک لیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس پر شامی ساختہ اسلحہ لدا ہوا ہے۔ اس کو پہلے ایران بھِیجا گیا اور وہاں سے اسے غزہ میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے لیے بھیجا جارہا تھا۔
مبینہ اسلحہ بردار جہاز کو کل ہفتے کے روز اسرائیل کی دو جنگی کشتیوں کے گھیرے میں ایلات بندرگاہ پہنچایا گیا۔
اسرائیلی فوج کی خاتون ترجمان کا کہنا ہے کہ جہاز پر لدے سامان کی مکمل تلاشی لی جائے گی اور ہم چیک کریں گے کہ آیا جہاز میں مزید اسلحہ تو نہیں ہے۔ ترجمان نے کہا کہ تلاشی کے بعد پیر کی شام کو اس حوالے سے ایک پریس کانفرنس بھی منعقد کی جائے گی، جس میں تمام تفصیلات میڈیا کو بتائی جائیں گی۔
اسرائیلی ریڈیو رپورٹ کے مطابق ملک کے بیرون ملک متعین سفیروں، ملٹری اتاچیوں اور اہم شخصیات نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جہاز کی تلاشی لینےکے بعد پوری دنیا کو بتائے کہ ایران کس طرح غزہ کی پٹی کے مزاحمت کاروں اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو کھلے عام اسلحہ بانٹ رہا ہے۔
اسرائیلی دعوے کے جواب میں ایرانی وزیرخارجہ نے بحری جہاز میں اسلحے کے الزامات کو من گھڑت اور تہران کے خلاف گھناؤنی صہیونی سازش قرار دیا ہے۔
ادھر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے کہا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر ہم دنیا کو بتائیں گے کہ آیا ایران نے غزہ کی پٹی کے مزاحمت کاروں کے لیے کتنا مہلک اسلحہ بھیجا ہے
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین